Common frontend top

ایچ اقبال


(قسط18) تاریک دریچے


فیصل آباد سے جھنگ کا فاصلہ پینتالیس میل کا ہے جو ایک گھنٹے سے بھی کچھ کم وقت میں طے ہو گیا۔ جب میں اور شاردا حویلی میں داخل ہوئے تو اس کے باڈی گارڈ باہر ہی رک گئے۔ باختر ہمارے ساتھ ہی رہا۔ ’’میں تمھیں پہلے میاں جی سے ملواتی ہوں۔‘‘ شاردا بولی۔ مجھ سے پہلے باختر بول پڑا۔’’میں نماز پڑھنے چلا جائوں میڈم؟‘‘ اس نے شاردا سے پوچھا تھا۔ ’’فیصل آباد میں ہی پڑھ لیتے ۔ جب ہم روانہ ہورہے تھے، اذان ہو رہی تھی۔‘‘ ’’آپ وہاں سے روانہ ہونے کے لیے کارمیں بیٹھ چکی تھیں۔ مجھے ہمت نہیں
پیر 25 جون 2018ء مزید پڑھیے

سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی: تاریک دریچے(قسط17)

اتوار 24 جون 2018ء
ایچ اقبال
ایک گھنٹے بعد جب میں فیصل آباد سے روانہ ہوئی تو میری کار میں شاردابھی تھی ۔ خود اس کی لینڈ کروزر میری کار کے پیچھے چل رہی تھی ۔ اس میں اس کے دوباڈی گارڈ تھے جن کے پاس کلاشنکوف تھیں ۔ ڈرائیونگ کرنے والا جوان العمر شخص تھا ۔ شاردامجھے اس کا نام تو بتاچکی تھی ۔ اس کے بارے میں تفصیل ؟ شاردانے کہا تھا کہ اس بارے میں وہ راستے میں بتائے گی ۔ ’’تمھارے با ڈی گارڈ تو یہاں کے روایتی لباس میں ہیں۔‘‘ میں نے کار چلاتے ہوئے شارداسے کہا ۔ ’’’لیکن باختر سوٹ پہنے
مزید پڑھیے


سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی: تاریک دریچے (قسط16)

هفته 23 جون 2018ء
ایچ اقبال
دوپہر کی فلائٹ سے میں جھنگ کیلئے روانہ ہوگئی ۔ گزشتہ رات میں خاصی دیر تک بانو کے گھر میں رہی تھی ۔ میرے سامنے ہی بانو کے کچھ لوگ آئے تھے اور دونوں ’’قیدیوں ‘‘ کو لے کر چلے گئے تھے ۔ ان دونوں قیدیوں میںسے ایک ،لاش میں بدل چکا تھا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی پر لگنے والی میری کہنی کی ضرب نے اس کا ایک مہرہ تو توڑ ہی دیا تھا لیکن اس کی وجہ سے اسے اندرونی طور پر کوئی ایسی چوٹ بھی پہنچی تھی کہ وہ جانبر نہ ہوسکا تھا۔ اس کی موت میرے لیے
مزید پڑھیے


تاریک دریچے (قسط15)

جمعه 22 جون 2018ء
ایچ اقبال
میں اور بانو بے اختیار کھڑی ہوچکی تھیں جب ان دونوں میں سے کسی نے ہمیں وارننگ دی تھی ۔ میں لکھ چکی ہوں کہ میں نے اس وقت ایک پل بھی ضائع نہیں کیا تھا ۔ میں پیچھے کی طرف گری تھی ۔میرے پیچھے گدیلی کرسی تھی ۔ میری گردن اسی سے ٹکی کیونکہ گرتے وقت میں نے اپنا توازن نہیں کھویا تھا اس لیے میری گردن پر چوٹ نہیں لگی ۔ گرتے ہوئے میں نے اپنی ٹانگیں پھیلا دی تھیں ۔ ان دونوں ہی نے مجھ پر فائر جھونک مارے تھے ۔ دونوں گولیاں میرے اوپر سے گزر
مزید پڑھیے


سنسنی خیز اور تحیر انگیز سلسلہ وار کہانی: تاریک دریچے (قسط14)

جمعرات 21 جون 2018ء
ایچ اقبال
بانو مجھے اندر لے گئیں۔ جب میں ان کے گھر میں جاتی ہوں تو ان کی خواب گاہ میں ہی جاتی ہوں ۔ یہاں میں ایک غیر معمولی بات لکھتی چلوں ، یہ ذکر تو میں کرچکی ہوں کہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں بانو کے بنگلے ہیں لیکن یہ میں اب لکھ رہی ہوں کہ سبھی بنگلے ایک ہی نقشے کے مطابق بنائے گئے ہیں ۔ فرنیچر وغیرہ بھی ایک سا ہے ۔ صرف ملازمائیں مختلف تھیں اور یہ ایک مجبوری تھی ۔ ’’کیپٹن خان!‘‘ بانو نے پیار سے کہا ۔‘‘ مجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ آج
مزید پڑھیے









اہم خبریں