ملک ترقی یافتہ دنیا کا ہویاتیسری دنیا کا اس کی سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہوتی ہے کہ تمام ادارے ایک پیج پر ہوتے ہوئے کام اپنا اپنا کریں۔ ایک منتخب جمہوری حکومت کا اہم ترین کام یہ ہے کہ وہ جمہوریت اور جمہوریت کی سب سے بڑی علامت پارلیمنٹ کو مضبوط سے مضبوط تر کرے اور دستور کو ایک مقدس دستاویز گردانتے ہوئے اس کی بالادستی کو یقینی بنائے۔ دستور کے اندر ہر ادارے کی حدود کار کا تحفظ بھی جمہوری حکومت کے وزیر اعظم کا فرض اولین ہے۔ چند روز پہلے وزیر اعظم نے اسلام آباد کے چند صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے بہت سی باتیں کیں۔ جن میں ایک اہم بات یہ تھی کہ فوج پی ٹی آئی کے منشور کے ساتھ ہے۔ اس کے علاوہ جناب وزیر اعظم نے جنوبی پنجاب صوبہ اور مڈٹرم الیکشن کی بات بھی کی تھی۔ وزیر اعظم نے ایک نکتہ آفرینی بھی کی کہ عسکری حکومتیں چونکہ عرصہ طویل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں اس لئے وہ ملک کے مستقل نوعیت کے منصوبے بروئے کار لاتیں اور ان پر عملدرآمد بھی کرواتی ہیں۔ لائوڈ تھنکنگ چونکہ وزیر اعظم صاحب کا طرہ امتیاز ہے اور منہ آئی گل نہ رہندی اے۔ اس لئے وہ بات کہہ جاتے ہیں اور بعد میں غور فرماتے ہیں کہ وہ کیا کہہ گئے ہیں۔ مثلاً اگر وہ غورو فکر کے بعد الفاظ کے مناسب چنائو سے کام لیتے تو انہیں کہنا چاہیے تھا کہ ’’فوج دستور پاکستان کے ساتھ ہے‘‘ بعدازاں ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس کانفرنس میں جہاں اور بہت سی باتیں کہیں وہاں انہوں نے عمران خان کی تصحیح کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ فوج کسی پارٹی یا صوبے کی نہیں۔ اس کے علاوہ صحافیوں کے انٹرویو میں وزیر اعظم نے پاکستان کی آمرانہ حکومتوں کی منصوبہ بندی کی تعریف کرتے ہوئے ایوبی دور کو بہت سراہا اور ساتھ ہی یہ فلسفہ بھی بیان کیا کہ منتخب حکومتیں چونکہ پانچ سال کے لئے آتی ہیں اس لئے وہ صرف پانچ برس کا سوچتی ہیں اور طویل عرصے کے منصوبوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں اس لئے پہلے بھی جناب عمران خان کئی بار ایوبی دور کی بہت تعریف و توصیف کر چکے ہیں اس لئے قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی باتوں سے آمریت کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا جناب وزیر اعظم قیام پاکستان کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں کے عدم استحکام کو اس دور کے سیاستدانوں کی ناکامی سمجھتے ہیں یا پھر فی الواقع ایوب خان کے آمرانہ دور اور ملک کے لئے صدارتی نظام کو پسند کرتے ہیں۔ اس کے لئے وہ سول سروس میں اسی نوعیت کی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں جیسے ایوب خان لائے تھے۔ جناب وزیر اعظم کے پاس ان دنوں تو ان ایکشن ہوتے ہوئے اتنا وقت نہیں ہو گا کہ وہ تاریخ پاکستان کا بنفس نفیس مطالعہ کر سکیں البتہ وہ اپنے کسی سیاسی مشیر سے تاریخی حقائق پر تفصیلی بریفنگ لے سکتے ہیں۔ جناب وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ 1948ء اور 1958ء کے درمیان سول سرونٹس پیش پیش تھے۔ پاکستان کے 1956ء کے جمہوری دستور کے مطابق پہلے منتخب صدر سکندر مرزا کا تعلق سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تھا۔ اس کا نتیجہ 1958ء کے پہلے مارشل لاء کی صورت میں نکلا۔ ایوب خان نے مشرقی و مغربی پاکستان کے نمائندہ سیاست دانوں کی باہمی سیاسی دانش کے شاہکار 1956ء کے دستور کو ایک عسکری فرمان سے منسوخ کر دیا۔ اگر 1956ء کے دستور کو چلنے دیا جاتا اور اس زمانے کی بیورو کریسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ اس دور کے سینئر سیاست دانوں کے دست و بازو بنتے اور چودھری محمد علی جیسے سو فیصد محب وطن سیاست دان کو چلنے دیا جاتا تو پھر نہ ملک میں مارشل لائوں کے لئے دروازہ کھلتا اور نہ ہی کبھی پاکستان کے ٹوٹنے کی نوبت آتی۔ اس دروازے کے کھلنے کے بعد ملک میں مزید تین فوجی حکومتیں آئیں۔ ایوب خان نے بعد میں بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرواتے ہوئے اپنے آمرانہ طرز حکومت کو تحفظ دینے کے لئے 1962ء کا شخصی آئین نافذ کر دیا اور وہ خود صدر پاکستان بن بیٹھے۔ اس زمانے کی متحدہ اپوزیشن نے اس وقت کی سب سے زیادہ واجب الاحترام شخصیت محترمہ فاطمہ جناح کو آمرانہ دور حکومت کے خاتمے کے لئے ایوب کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لینے پر آمادہ کر لیا۔ ایوب خان نے بالواسطہ طریقہ انتخاب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن میں دھن‘ دھونس اور دھاندلی سے کام لیتے ہوئے خود کو صدر منتخب کروا لیا۔1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران جمہوری سیاست دانوں نے تمام تر اختلافات بھلا کر ایوب خان کا بھر پور ساتھ دیا۔ تب دشمن کو یہ پیغام گیا کہ فوج‘ سیاست دان‘ قوم اور سب ادارے جارحیت کا ارتکاب کرنے والی دشمن کی افواج کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں اور ہم سب ایک پیج پر ہیں۔ جب ایک بھر پور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ایوب خان کو اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا تو انہوں نے اپنے ہی دستور دیئے ہوئے 1962ء کے دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی فضل القادر چودھری کے سپرد اقتدار کرنے کے بجائے ایک اور فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کے سپرد اقتدار کر دیا۔ آگے ساری تاریخ ہے۔ اسی جنرل یحییٰ خان نے اکثریتی منتخب حکومت کو اقتدار دینے کی بجائے پاکستان توڑنے کو ترجیح دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا آمرانہ طرز عمل بھی ہماری سیاسی تاریخ میں زیر بحث آتا رہا ہے مگر ان کی منتخب جمہوری حکومت کے بہت سے کارنامے ایسے ہیں جن کی ہر کوئی داد دیتا ہے۔ بھٹو نے ٹوٹے ہوئے پاکستان کی منتخب اسمبلی میں مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ کے آزادانہ باہمی مشوروں سے 1973ء کا جمہوری پارلیمانی ‘ اسلامی و فلاحی دستور منظور کروایا۔ یہ دستور مکمل طور پر متفقہ دستور ہے۔ انہوں نے پاکستان جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے عظیم سائنسدان کو بلایا۔ انہوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ جوئے‘ شراب وغیرہ پر پابندی لگائی اور جمعتہ المبارک کو ہفتہ وار چھٹی قرار دیا۔ جناب عمران خان کے ساتھ ساری قوم کی بہت سی جمہوری ‘سیاسی ‘اور تعلیمی امیدیں وابستہ ہیں مگر جناب خان صاحب کو کوئی بھی رائے دیتے ہوئے یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ملک میں جمہوریت نہ ہوتی تو وہ 2002ء کی اسمبلی میں ایک سیٹ کی پارلیمانی قوت اور 2013ء میں 26سیٹیں لے کر اور پھر 2018ء میں اکثریتی پارٹی بن کر پارلیمنٹ میں ایک مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہوتے۔ اسی طرح خان صاحب کئی مرتبہ اعتراف کر چکے ہیں کہ اگر آزاد میڈیا نہ ہوتا تو وہ کبھی برسراقتدار نہ آتے۔ لہٰذا ایک آزاد میڈیا کا مکمل تحفظ بھی عمران خان کی ذاتی ہی نہیں دستوری و جمہوری ذمہ داری بھی ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا بھی ان کی پارلیمانی ذمہ داری ہے۔ جناب عمران خان نے آغاز میں ہی اعلان کیا تھا کہ وہ ہر ہفتے پارلیمنٹ آیا کریں گے اور ارکان پارلیمنٹ کے سوالوں کے جوابات دیا کریں گے۔ غالباً ابھی تک خان صاحب اپنی اس پارلیمانی خواہش پر عملدرآمد کے لئے وقت نہیں نکال سکے۔ جیسا کہ کالم کی ابتدا میں عرض کر چکا ہوں کہ ملک میں تمام اداروں کا ایک پیج پر ہونا بہت ہی خوش نصیبی کی بات ہے۔ ایک پیج پر ہونے کا مطلب ہے کہ جمہوری حکومت جمہوری اداروں کا تحفظ کرے اور فیصلے بڑے ہوں یا چھوٹے پارلیمنٹ کے اندر ہوں۔6دسمبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک جامع پریس کانفرنس کی اور بہت سے موضوعات پر اظہار خیال کیا تاہم انہوں نے بعض سیاسی اشارے بھی کئے ہیں ۔ انہوں نے فوج کی حدود کا تعین کر دیا۔ آئیڈیل یہ ہے کہ تمام ادارے آئین میں متعین کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے ایک پیج پر ہوں۔