متحدہ قومی موومنٹ کے بانی کی متکبرانہ سیاست بلکہ دہشت اور پھر اس کے ٹوٹنے اور بکھرنے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔پھر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بعد کے برسوں میں جب متحدہ قومی موومنٹ نے بلدیاتی اداروں اور سندھ میں مخلوط حکومتوں میں جو برسہا برس راج کیا ۔۔۔تو اس سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ،لاہور نہ بھی بنتا تو کم ا ز کم 70کی دہائی کا کراچی تو رہتا۔ہاں ایک میئر مصطفی کمال کے دور میں ضرور کراچی کا چہرہ نکھرا ۔مگر آج جو یہ شہرِ ناپرساں بنا ہے تو اس کا ذمہ دار کوئی اورنہیں خود بانی ِ متحدہ کے وہ کھمبے ارکان اسمبلی مشیر، وزیر اور سیکٹر انچارج ہیں جو 120گز کے کواٹروں سے اٹھ کر ڈیفنس اور کلفٹن میں اپنی آل اولاد کے ساتھ جا بسے۔موٹر سائیکلوں سے لینڈ کروزر پر سوار ہو کرصبح اُن کی اسلام آباد آمد ہوتی تو شام اُن کی لندن ۔ پھر متحدہ قومی موومنٹ کو آج اس تتر بتر حالت میں پہنچنے میں بھی سال دو سال نہیں ، سات ،آٹھ برس تو ضرور لگے۔تین دہائی سے لندن کے پرفضا مقام میں پر تعیش زندگی گذارنے والے بانی ِ متحدہ کو اسٹیبلشمنٹ نے آخری دھکا اُس وقت دیاجب وہ خود اپنے جانثاروں ، کے تیر و دشنام کا شکار ہو نا شروع ہوگئے تھے۔مئی 2013ء کے الیکشن متحدہ قومی موومنٹ کو جس طرح قومی و صوبائی اسمبلی میں نشستیں ملیں اُس کا بھانڈا کسی اور نے نہیں خود بانی ِ متحدہ کے برادران ِ یوسف نے اسکرینوں پر کیا۔اور تو اور ہمارے لیاری کے پی پی سے دو بارمنتخب ہونے والے سردار نبیل گبول جب پی پی سے نکل باہر ہوئے اور متحدہ میں شامل ہوئے تو انہیں اردو اسپیکنگ کے ریکارڈ سوالاکھ ووٹ ملے۔بعد میں جب وہ متحدہ سے بھی نکل باہر ہوئے تو انتہائی ڈھٹائی سے اقرار کیا ’’مجھے خود نہیں معلوم کہ اتنے ووٹ مجھے کہاں سے ملے‘‘۔ ۔ ۔ اس بات کے آج بھی مستند شواہد نہیں ملتے کہ مصطفی کمال بھائی کی راتوں کھڑی ہونے والی پاک سر زمین پارٹی کو مارچ 2016ء میں کس نے کھڑا کیااور پھر اگست 2016ء میں منکسرالمزاج بانی متحدہ کے سامنے ایک ٹانگ پر کھڑے رہنے والے ڈاکٹر فاروق ستار میںایسی جرأت و ہمت اور تنظیمی صلاحیت آگئی کہ راتوں رات وہ سارے پاکستان کی متحدہ کو کاندھوں پر سوار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔جولائی2018ء کے الیکشن سے پہلے تین دہائی میںہونے والے ہر بلدیاتی ،قومی و صوبائی اسمبلی میں الیکشن میں اچھے اور کڑے دونوں ادوار میںجو بھاری کامیابی ملتی رہی اُس کا کریڈٹ صرف اور صرف ایک شخص کو جاتاہے۔جولائی 2018ء میں جب وہ مائنس (-)ہوا تو مصطفی کمال بھائی کے پاس تو زیرو +زیرو ہاتھ آیا مگر متحدہ پاکستان کے دعویدار دھڑام سے آگرے۔اگر ۔۔۔ایک بار پھر زور دے کر لکھ رہا ہوں کہ۔۔۔اگر متحدہ کا ووٹ اس بڑے پیمانے پر چرایا جاتا تو محاورتاً نہیں عملاً سارے شہر میں آگ لگ جاتی ۔مگر رات کے آخری پہر میں جب متحدہ کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہونے کی خبریں آنی شروع ہوئیں تو کسی کی نکسیر بھی پھوٹنے کی خبر بھی نہیں آئی ۔اور اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ مستقبل میںبھی کسی معجزے کی امید بھائی اور اُن کی قوم کو نہیں رکھنی چاہئے؟ مگر یہ سوال بہر حال اپنی جگہ رہے گا کہ کراچی کی نواحی پس ماندہ بستیوں میں پیلے سرکاری اسکولوں سے نکلنے والے اردو میڈیم نوجوان مہینوں، برسوں میں 21ویں صدی کے آتے آتے اتنی بڑی اور مضبوط ڈسپلینڈ سیاسی قوت کیسے بن گئے؟ دور کیوں ذرا حوالے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی ہی دیکھ لیں۔ ستر کی دہائی میں مرکز ہی نہیں چار میں سے تین صوبوں میں گراس روٹس پر تنظیمی طور پر انتہائی منظم اور ایک نہیں تین بار جس کا وزیر اعظم رہا اور جو انتخابی اعتبار سے سندھ کے تو ہر الیکشن میں بلا شرکتِ غیرے کامیاب ہوتی رہی۔ خود شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں کس طرح صرف سندھ تک محدود ہو گئی۔ رہی پاکستان مسلم لیگ ن تو 70 سال بعد اگر اس میں سے ’’شریف خاندان‘‘ کو نکال دیا جائے تو یہ نوابزادہ نصر اللہ خان کی ٹانگہ پارٹی بن جائے۔ معاف کیجئیے نوابزادہ صاحب کے جیسے پائے کے سیاستداں اور دانش ور کا ذکر کرتے ہوئے ’’ٹانگہ پارٹی‘‘ کی پھبتی زبان پر آگئی ورنہ نوابزادہ نصراللہ خان اپنی ذات میں خود ایک انجمن اور تحریک تھے۔ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جتنے بھی حزبِ مخالف کے محاذ بنے اُس کا محور و مرکز نوابزادہ صاحب کی ذات ہی ہوتی تھی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یقیناً عمران خان کو اسکا کریڈٹ جائے گا کہ اُنہوں نے لاکھوں کی تعداد میں اُن نوجوانوں کو گھروں سے نکالا کہ جو دہائیوں سے الیکشن کے دن پکنک منانے نکل جاتے تھے۔ جولائی 2018ء کے الیکشن میں مرکز سمیت سندھ اور پنجاب اورکے پی میں آج وہ پہلی بڑی سیاسی قوت تو ضرور ہے مگر اپنے پروگرام اور منشور کے برعکس اب خانوں، تمنداروں اور نودولتیوں کے گھیرے میں آگئی ہے۔ اگر سکے کے دو کی جگہ تین رُخ ہوتے تو یہی کہتا کہ پی پی پی اور ن لیگ کے بعد پی ٹی آئی بھی حکومت میں آنے کے بعد اِس کھوٹے سکے کا تیسرا رُخ ہے۔ یہ لیجئیے بات ایم کیو ایم سے شروع ہوئی تھی کہ جس کے بارے میں میں نے سوال اُٹھایا تھا کہ ’’منزل ہے کہاں تیری؟‘‘۔ اگر 1988 ء میںمتحدہ قومی موومنٹ کا انتخابی منشور دیکھا جائے تو اُس سے صاف ظاہر تھا کہ سندھ کے شہری علاقوں میں مستقبل میں ’’مہاجر صوبے‘‘ کی ’’نیو‘‘ ڈالی جا رہی ہے۔ بہرحال یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ’’مشرقی پاکستان‘‘ کی طرح سندھ کے اردو اسپیکنگ جنہیں عرفِ عام میں مہاجر ہی کہا جائے گا اسلام آباد کی سویلین، ملٹری اسٹیبلشمنٹ پالیسیوں کے سبب برسہا برس دوسرے درجے کے شہری بنے رہے۔(جاری ہے)