اسلام دین فطرت ہے اور دین اسلام نے فطرت کے اصولوں انسان کی افزائش و نمو کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے ۔قرآن کریم میں نکاح ،رشتہ ازدوج (بچوں کی شادی )کے طریقہ کار اورمسائل کے حل کوبڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ نکاح کے متعلق قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے کہ تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کردیا کرو جو (نکاح کی عمر ہوجانے کے باوجود)ازدواجی زندگی کے بغیر رہ رہے ہوں ۔(النور،۳۲) مفسر قرآن حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی روشنی میں رقم طراز ہیں کہ اسلام جو دین فطرت ہے وہ معاشرے کو پاکیزہ رکھنے اور بے حیائی سے بچانے کے متعلق صرف وعظ ہی نہیں کرتا بلکہ عملی تجاویز او ر مشکلات کا صحیح حل بھی پیش کرتا ہے ۔ آپ ذرہ غور فرمائیں کہ جس معاشرے میں بن بیاہی عورتیں باکثرت ہو نگی وہاں جذبات کو کب قابو میں رکھا جا سکتا ہے ۔بڑے تحفظ اور احتیاط کے باوجود شدت جذبات سے مجبور ہو کر وہ غلط قدم اٹھا سکتی ہیں ۔شیطان بڑی آسانی سے ا نہیں ورغلا کر گمراہ کرسکتا ہے ۔بدکاری کا یہ بھی ایک دروازہ تھا جس کی طرف سے اسلام اگر اغماض کرتا تو اسے حقیقت پسندی نہ سمجھا جاتا۔چنانچہ اس آیت میں حکم دیا جارہا ہے کہ مسلمان ایسے مردوں اور ایسی عورتوں کی طرف سے غفلت اور بے پروائی نہ کریں بلکہ ان کا نکاح کرکے ان کو گھروں میں بسانا اپنا اخلاقی فرض سمجھیں۔ اس طرح ایک تو ان کی حالت زار بدل جائیگی اور ان کی حرماں نصیباں ختم ہو جائیں گی وہ مایوسی کے گوشہ سے نکل کر عملی زندگی میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا نفع بخش مظاہرہ کر سکیں گی ۔ دوسرا معاشرہ ان کی لغزش کے نتائج سے محفوظ ہو جائیگا ۔اس حقیقت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح واضح فرمایا اے نوجوانوں کے گروہ تم میں سے جو طاقت رکھے وہ ضرور شادی کرے کیونکہ شادی کرنا اس کی نگاہ کو پاک کر دیگا اور اس کو گناہ سے بچا لے گا ۔اور جو شادی کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ روزے رکھے ۔(تفسیر ضیاء القرآن جلد سوم ) امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی معاشرے میں بے حیائی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے متعدد مقامات پر نکاح کی اہمیت کو بیان فرمایا ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے نکاح کیا اس نے اپنا آدھا دین محفوظ کر لیا اور بقیہ آدھے دین کے معاملے میں اللہ تعالی سے ڈرے (شعب الایمان للبیہقی ) اس حدیث مبارکہ کے ضمن میں چند اہم باتوں کی طرف دھیان دینا ضروری ہے ۔والدین یا سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ جب اولاد جوان ہو جائے تو ان کے لیے موزوں رشتہ تلاش کریں۔اوررشتے میں یعنی اسلام ،آزاد ی ،نسب ،مال ودولت ،تقوی ٰو دیانت اور پیشہ میں برابری کو مدنظر رکھنا لازمی امر ہے ۔ ہمارے معاشرے میں ذات پات وبرادری کو اولین شرط سمجھا جاتا ہے جبکہ برادری ازم کفائت میں شامل نہیں ہے ۔اسلام کی ابتدا میں والدین کی طرف سے بچی کو تحائف پیش کیے جاتے تھے وہ والدین کی مالی حیثیت کے مطابق ہوا کرتے تھے ۔ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنی صاحبزادیوں کو انتہائی سادہ تحائف پیش کیے ۔ کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی حیثیت کے مطابق تحا ئف پیش کیا کرتے تھے ۔ دور حاضر میں ان تحائف کو جہیز کا نام دیکر لڑکی والوں پر ایک بھاری بھرکم بوجھ ڈال دیا جاتا ہے ۔ اور بچی والوں سے گاڑی ،بنگلہ ودیگر طلائی زیوارات کی مد میں ایک ٹیکس عائد کیا جاتا ہے ۔کم جہیز لانے پہ بچیوں پہ طعن و تشنیع کی جاتی ہے اور بعض مقامات پر جہیز میں مطلوبہ اہداف پورے نہ ہونے کے باعث بچیوں کے رشتے توڑ دیئے جاتے ہیں۔یہ سراسر ظلم و زیادتی اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلاف ورزی ہے ۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات بلکل واضح ہے کہ بیوی کے تمام اخراجات گھر ،رہن سہن کا سازو سامان ،برتن ،بستر ودیگر سامان آسائش مرد کی ذمہ داری ہے ۔ والد کی وراثت سے بچیوں کو جو حقوق ملتے ہیں ۔مختلف حیل و حجت سے شوہراسے اپنے ذاتی استعمال یا کاروبار میں استعمال کرتے ہیں جو نا انصافی ہے ۔ہاں اگر عورت اپنی رضا سے یہ مال ودولت شوہر کے سپرد کے دے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے ۔ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص آیا اور عرض کیا یارسول اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے ایک معزز خاندان کی خوب صورت خاتون ملی ہے (اس سے شادی کا خواہش مند ہوں ) مگر وہ بانجھ ہے (یعنی اس میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے )کیا میں اس سے شادی کر لوں ؟ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں اس شخص نے دوتین بار یہی سوال کیا تو امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شوہر سے محبت کرنیوالی اور بچے پیدا کرنے والی خاتون سے شادی کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کرونگا ۔(سنن ابو داؤ د شریف حدیث نمبر2050) اس حدیث مبارکہ کے مفاہیم میں دو باتیں بہت اہم ہیں ۔ پہلی بات یہ ہے کہ رشتوں کے انتخاب میں لڑکے اور لڑکی کی پسند ناپسند کا کافی عمل دخل ہونا چاہیے تاکہ میاں بیوی کے درمیان دائمی محبت وپیار پیدا ہو ۔اوراگر کاروباری مفادات ، خاندانی تنازعات، مجبوریوں اور جھگڑوں کے حل کے لیے بچی بچے کا زبردستی نکاح کردیا گیاتویہ اس مقدس رشتے کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ شادی مکمل زندگی ساتھ نبھانے کے لیے ہو اوراس حلال رشتے کے ذریعے امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑھانے کے لیے بچوں کی پیدائش کی خواہش ہو ،جز وقتی شادیاں ،جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے شادی کرناغیر فطری اور غیر اسلامی طریقہ کا ر ہے جس سے معاشرے میں بھیانک نتائج رونماہورہے ہیں ۔اور وقتی لذت کے بعد خواتین کو دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں ۔