مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج نے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ ‘ ان کی بہن ‘بیٹی اور سابق چیف جسٹس بشیر احمد خان کی اہلیہ سمیت متعدد خواتین کو گرفتار کر لیا۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی پابندیوں کو 74روز ہو چکے ہیں جبکہ ایس ایم سروس کو کھولنے کے بعد دوبارہ بند کر دیا ہے ۔ کشمیری جان کنی کے عالم میں نہ صرف بھارتی مظالم برداشت کر رہے ہیں بلکہ ان کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ نکتہ بہرحال قابل غور ہے کہ منگل کے روز ہونے والے مظاہرے میں جن اہم خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے ماضی میں سیاسی طور پر ان کا جھکائو بھارت کی طرف رہا ہے اور انہیں بھارت نواز قرار دیا جاتا رہا ہے۔مقبوضہ وادی کے سیاسی اتار چڑھائو کے واقفان حال نے اس پس منظر میں یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت نواز کشمیری قیادت کی گرفتاریاں کہیں کوئی سیاسی گٹھ جوڑ تو نہیں کیونکہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور ان سے پہلے ان کے والد شیخ عبداللہ نے بھی کشمیریوں کی رائے جانے بغیر پوری وادی کو بھارت کی آغوش میں دیدیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت مقبوضہ وادی سے کرفیو اور دیگر تمام پابندیاں ختم کرے تاکہ کشمیری عوام بلا خوف و خطر اپنے گھروں سے باہر آ کر کاروبار زندگی کر سکیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کو ظالمانہ فیصلہ واپس لینے اور مقبوضہ کشمیر سے اڑھائی ماہ سے جاری تمام پابندیاں اٹھانے پر مجبور کرے تاکہ کشمیری عوام اپنی خواہش اور آزادی کے ساتھ اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل ہو سکیں۔