چھریرے بدن کا مالک ونگ کمانڈر نعمان اکرم ایک بہترین ہوا باز تھا شاندار صلاحیتوں کا حامل،اسکا سروس ریکارڈاسکی بہترین پیشہ وارآنہ صلاحیتوں کا گواہ ہے اسے پاک فضائیہ کے سب سے خطرناک اور ’’مہلک‘‘ لڑاکا ایف سولہ طیاروں کے 9اسکواڈرن کی کمان سونپی گئی ،شہید ہوا باز نے یوم آزادی پریڈ کی مشق کے لئے چار دن پہلے پی اے ایف بیس مصحف سرگودھا کے رن وے سے اپنے ایف سولہ کے ساتھ فضا میں چھلانگ لگائی یہ اسکے لئے ایک معمول کی پرواز تھی لیکن یہ پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد تک پہنچتے پہنچتے امتحان بن گئی طیارے میں کوئی ٹیکنیکل خرابی ہوچکی تھی او ر اسکے پاس صرف دس سیکنڈ تھے ان دس سیکنڈز میں اس نے فیصلہ کرنا تھا اس کے پاس ejectکاآپشن موجود تھاصرف ایک بٹن دبانے سے کاک پٹ کھلتا اور اسکی سیٹ زوردار طاقت سے اسے ہوا میں اچھال دیتی اوروہ پیرا شوٹ کھول کر محفوظ طریقے سے نیچے اتر سکتا تھا بحیثیت باپ ،شوہر اور بیٹے کے اسے یہی کرنا چاہئے تھا لیکن اسکے اس فیصلے کی قیمت ان بے خبر لوگوں کو ادا کرنی پڑتی جو نیچے اپنے کاموں میں مگن ہوتے ،وہ طیارہ اسلام آباد کی آبادی پر تھا کنٹرول چھوڑنے کے بعد وہ کسی بھی اسکول پر گر سکتا تھا جہاں اسکی بیٹی جیسی بہت سی بیٹیاں پڑھ رہی ہوتیں ،وہ کسی بھی شاپنگ پلازے پر گر کر وہاں لوگوں کی زندگیاں ختم کر سکتا تھا ،ایک طرف اپنی زندگی تھی دوسری جانب معصوم شہری،ایک جانب اسکی بیٹی اور بیٹا تھے اور دوسری طرف کتنوں ہی کے بیٹی اور بیٹے۔۔۔وقت تیزی سے کم ہورہا تھا اور جتنی تیزی سے کم ہورہا تھا اسکی زندگی کی ضمانت اس سے زیادہ تیزی سے ختم ہورہی تھی بلاخر اس نے فیصلہ کرلیاکہ وہ طیارہ آبادی پر گرنے نہیں دے گا اسے اس فیصلے کی قیمت کا اندازہ تھا اسے خبر تھی کہ یہ فیصلہ اسکے بچوں اسکی فیملی کو اس سے محروم کرسکتا ہے ،وہ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو سکتے ہیں لیکن اس نے یہ بڑا فیصلہ کیا فضا میں ڈولتے طیارے کو آبادی سے نکالنے لگا اسکی نظریں شکر پڑیاں کی جانب تھیں جس کی پہاڑی پر طیارہ گر بھی جاتا تو جانی نقصان سے بچا جا سکتا تھا لیکن اس صورت میں اسکا بچنا محال تھا اور ایسا ہی ہوا طیارہ شکرپڑیاں پر گرادیکھنے والوں نے سبز درختوں میں سے آگ کا گولہ بلندہوتے دیکھا اور بس ،وہ اپنی زندگی دے کر کئی زندگیاں بچا گیا۔ کرنل مجیب الرحمٰن ایک حساس ادارے کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں تھا اسکا کام وطن عزیز سے دہشت گردی کاناسور کھرچ کھرچ کر پھینکنا تھا بڑی قوتوں کو پشت پر رکھنے والے تربیت یافتہ دہشت گردوں سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا سرحد پار محفوظ ٹھکانے رکھنے والے دہشت گرداب جدید اسلحے سے ہی نہیں ٹیکنالوجی بھی رکھتے ہیں آٹھ مارچ کو،کرنل مجیب کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے ٹانک میں خطرناک دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع ملی جو کسی بڑی کارروائی کی تیاری میں مصروف تھے کرنل مجیب نے ٹیم تیار کی اور دہشت گردوں کے سر پر پہنچ گیاوہ خود کو ٹیم کو لیڈ کر رہا تھا اور سب سے آگے تھا سب سے آگے ہونے میں سب سے زیادہ رسک بھی ہوتا ہے کچھ بھی ہوسکتا ہے وہ کمانڈنگ افسر تھا زرا سا پیچھے رہ کر آپریشن کی رہنمائی کر سکتا تھا اس صورت میں وہ بھی محفوظ رہتا اور اسکے بچوں پر اسکا دست شفقت بھی قائم رہتا لیکن کرنل جانتا تھا کہ پیچھے رہ کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا اسے ٹیم لیڈ کرنی تھی اور لیڈر ہمیشہ آگے ہوتا ہے ،کرنل دہشت گردوں کی کمین گاہ میں ان کے سروں پر جا پہنچافائرنگ کا تبادلہ ہوا ایک دہشت گرد کی گولی سب سے آگے موجودکرنل کے سر پر لگی جو آرپار ہوگئی اسکے ساتھی نے اپنے آفیسر کو فورا اٹھا کر ایک طرف محفوظ کرنے کی کوشش کی کیا لیکن دیر ہوچکی تھی وہ جان چکا تھا کہ کرنل کا آخری وقت آچکا ہے اس نے اپنے بہادر افسر کا سر اپنی گود میں لیا اور کلمہ پڑھانے لگا،کرنل کے لب ہلے اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ساکت ہوگئے ،وطن کا یہ بیٹا وطن پر قربان ہوچکا تھا،مجھے دو دن بعد پتہ چلا کہ شہید کرنل میرے دوست کرنل حبیب کا چھوٹا بھائی ہے ،کرنل حبیب ،سابق ڈی آئی جی میر افضل خان کے صاحبزادے ہیں میر صاحب کے چھ بیٹوں میں سے تین نے فوج کا انتخاب کیا اور تین نے سول لائف کا ،میں نے میر صاحب کو تعزیت کے لئے فون کیا تو وہ جوان عزم بوڑھا الحمدللہ الحمدللہ کہتاملا میر صاحب کا حوصلہ پہاڑوں کا ساہے وہ کہنے لگے میں نانا اور دادا بھی ہوں میرے بیٹے تو کیا نواسے اور پوتے بھی پاکستان کے لئے حاضر ہیں ،کل تک مجیب میرا بیٹا تھا اب پورے پاکستان کا بیٹا ہے۔ پاک فوج میں سپاہیوں کی نسبت افسروں کی شہادت کا تناسب ایک کی نسبت با رہ کا ہے یعنی ہر بارہ سپاہیوں پر ایک افسراپنی جان کی قربانی دے چکا ہے ایک وقت میں یہ تناسب ایک کی نسبت نو تک پہنچ چکا تھااور سوات آپریشن میں یہ تناسب ایک کی نسبت آٹھ تک بھی تھا ،اس آپریشن میں پاک آرمی کے 985افسر اور جوان شہید ہوئے جن میں افسران کی تعداد228تھی لیکن برطانیہ میں بیٹھ کر ماریہ راشد صاحبہ ایک کتاب ’’ “Militarism, Affects and the Politics of Sacrifice in the Pak Army لکھتی ہیں جسکالب لباب یہ ہے کہ پاک فوج میں سپاہی ہی قربانی کا بکرا بنتے ہیں یہاںایک مخصوص صوبے پنجاب کی چھاپ ہے فوج پنجاب پر زیادہ انحصار کرتی ہے حالاںکہ دو روز قبل ہی سندھ سے تعلق رکھنے اور سندھی بولنے والے دو بریگیڈئیرو ں شبیر ناریجو اور جاوید دوست چانڈیو کومیجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے،اردو بولنے والے مرزا اسلم بیگ اسکے سپہ سالار رہ چکے ہیں ۔۔۔ماریہ صاحبہ کا اپنی کتاب کے بارے میں یہ بھی کہنا ہے کہ یہ نان کمیشنڈ یعنی سپاہیوں کی جانی قربانیوں پر لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے سچ یہ ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے نہ آخری ،کیونکہ یہ پروپیگنڈے کا نقطہ ء آغاز ہے نہ اختتام ،مخصوص ذہنیت کے اسیر سیکولر لبرلز پاکستان او ر پاکستان کے اداروں کے بارے میں ایسے ہی مسخ حقائق پینٹ کرکے بگڑی ہوئی صورتیں بناتے ہیںنمائشیں لگاتے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ کوئی نہ ونگ کمانڈرکوئی نعمان اکرم اورکوئی نہ کوئی کرنل حبیب اپنے لہوسے ان کے فن پارے بگاڑ جاتا ہے اور مصور تلملا کر رہ جاتا ہے آج یقینناماریہ راشد بھی بہت تلملا رہی ہوں گی !