پچھلی بہت سی ہفتہ وار چھٹیوں کی طرح اس بار بھی ذاتی مصروفیات کے ساتھ کچھ دوستوں سے ملاقات اور علمی منصوبوں پر تبادلہ خیال کا پروگرام تھا۔عام طور پران ملاقاتوں میں کچھ دیگر احباب بھی شامل ہو جاتے ہیں۔جیسے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں شعبہ فارسی کے استاد ڈاکٹر بابر نسیم آسی سے ملنے گیا تو وہیں صدر شعبہ ڈاکٹر اقبال‘بزرگ مہربان ڈاکٹر سعادت سعید اور دیگر اساتذہ کے ساتھ نشست ہو گئی۔یہ جان کر اچھا لگا کہ ایران سے طلبا پی ایچ ڈی کے لئے یہاں آتے ہیں۔ایک ایسی طالبہ سے ملاقات ہوئی۔وہ توڑی توڑی اردو جانتی تھیں اور میں تھوڑی تھوڑی فارسی، مسئلہ زبان کا ہوتا تو ایران سے بہتر فارسی میں پی ایچ ڈی کہاں سے ہو سکتی تھی‘ معاملہ دونوں برادر ممالک میں ثقافتی اور لسانی تعاون کے فروغ کا راستہ تلاش کرنا ہے۔اہل علم کو ایک دوسرے سے جوڑنا اور علمی اداروں کے باہمی تعلقات مستحکم کرنا ہے۔دوست ممالک کا مطلب ایک دوسرے کے دستر خوان پر شکم پری نہیں بلکہ آئندہ نسلوں تک محبت کی ڈور لے جانے والے ہوتے ہیں۔ ہمارے اردگرد بیک وقت بہت کچھ ہو رہا ہے۔یہ سب اس قدر تیز رفتار ہے کہ کسی ایک نکتے پر توجہ مرکوز رکھیں تو بہت سے منظر اوجھل چلے جاتے ہیں۔بعد میں جب ان اوجھل تفصیلات پر بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو خود کو گزرے لمحات میں لے جا کر سب کچھ ری وائنڈ کر کے دیکھنا پڑتا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں ہمارے برادر ملک سعودی عرب کے ساتھ سیاسی و عسکری قیادت کے رابطے ہوئے۔آرمی چیف سعودی عرب گئے۔ عمرہ ادائیگی کے ساتھ دو طرفہ سٹریٹجک امور پر تبادلہ خیال کیا۔سعودیہ کے ساتھ یہ تعلق سادہ اور پیچیدہ دونوں صورتوں میں ہے ،سادہ شکل کا تعلق حج اور مقامات مقدسہ سے ہے، پیچیدہ تعلق مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی سکیورٹی ہے۔سیاسی و عسکری قیادت کے ان رابطوں اور ملاقاتوں کے نتائج کئی طرح سے ظاہر ہو رہے ہیں‘ سردست چونکہ پاکستان معاشی ابتری کے دور سے گزر رہا ہے اس لئے نتائج کا وہ حصہ ہم سب کی توجہ کا زیادہ مستحق ٹھہرا جس میں امداد‘ قرض اور سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے اور معاشی تعاون کے وعدے ہوئے۔ پاک سعودیہ تعاون کی ایک تاریخ ہے۔سب سے نمایاں پہلو یہ کہ جب کبھی پاکستان کو ضرورت پڑی سعودی عرب نے مطلوبہ تعاون فراہم کیا۔سعودی عرب کو مسلم دنیا میں سربراہ کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ سیادت اور قیادت بلاشبہ خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کی وجہ سے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا معاملہ ہے کہ محبت رسولؐ میں ہر وہ مقام اور شخصیت قابل احترام ہے جو حرمت رسولؐ کے ساتھ منسلک ہے۔یوں اگر کبھی انفرادی سطح پر شکوہ شکایات بھی ہوں تو دوست ممنون رہتا ہے ۔ سعودی عرب نے وعدہ کیا ہے کہ پاکستان میں 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ڈیپازٹ میں رکھے ڈالروں کا حجم بھی بڑھا کر 5ارب ڈالر کرنے کا بتایا گیا۔ایک ایک ڈالر کے لئے پاکستان کو جن عالمی اداروں اور مغربی ملکوں کی منتیں کرنا پڑ رہی ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ایسے میں سعودی عرب کی طرف سے مالی تعاون کی فراہمی کا مطلب صرف معاشی سہولت نہیں بلکہ بین الاقوامی معاملات میں متعدد آسانیاں ہے۔ اس تعاون پر تنقید کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ تنقید کرنے والے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب نہیں دیکھ سکتے‘ ان کا خیال ہے کہ اس تعاون سے ان کے مفادات پر ضرب پڑ سکتی ہے۔تجزیہ اس بات کا بنتا ہے کہ ایسے حلقوں کو پاکستان کا مفاد عزیز ہے یا پھر کسی وجہ سے وہ سعودی عرب کے لئے غیر دوستانہ سوچ کو مقدم رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں سکیورٹی سب سے بڑا قومی مفاد بن چکی ہے۔ہر چیز کو سکیورٹی کے پہلو سے دیکھا جاتا ہے۔ جغرافیائی سلامتی کے ساتھ اب فوڈ سکیورٹی اور اکنامک سکیورٹی کے معاملات کو مساوی اہمیت دی جاتی ہے۔پاکستان کے لئے ہر وہ ملک اہم ہے جو اس کی سکیورٹی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔چین کے ساتھ تعلقات اس لئے اچھے نہیں کہ وہ بڑا ہمسایہ ہے۔چین سے تعلقات کی بنیاد قومی سلامتی کے مشترکہ منصوبے ہیں۔امریکہ کو کوئی لاکھ گالیاں دے لیکن یہ سوچا جانا چاہیے کہ آخر ہر حکومت امریکہ کے ساتھ تعلقات کیوں بہتر رکھنا چاہتی ہے؟ ظاہر ہے کہ موجودہ عالمی نظام امریکہ اور اس اتحادیوں کا بنایا ہوا ہے۔عالمی مالیاتی ادارے ان کے ماتحت ہیں‘ ترقی یافتہ ریاستیں اس وقت تک غریب ممالک کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر نہیں کرتیں جب تک امریکہ کی اجازت نہ ہو۔اسلحہ، دفاعی آلات ،سپیس اور زرعی ٹیکنالوجی پر امریکہ کا کنٹرول ہے یا اس کے اتحادیوں کا قبضہ ہے۔ غریب اور پسماندہ ممالک امریکہ کی ساری زیادتیاں اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے یا ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے امریکہ کی زیادتیاں برداشت کرنا پڑیں گی۔جن ملکوں کی قیادت دانشمند ہوتی ہے وہ کوشش کرتی ہے کہ خود کو اس قابل بنائے کہ محتاجی کا تعلق برابری کے مفادات میں تبدیل ہو جائے۔ سعودی عرب اور ایران میں تعلقات کا ناخوشگوار ہونا ایسا معاملہ نہیں جو حل نہ ہو سکے۔ پاکستان میں دونوں برادر ملکوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کی خاصی تعداد ہے۔ریاست پاکستان ایک جانب علمی‘ثقافتی اور فنی شعبوں میں ایران کے ساتھ رابطے بہتر بنا رہا ہے تو دوسری طرف خطے میں امن اور معاشی استحکام کیلئے سعودی عرب کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے‘ ان باہمی تعلقات کی کئی پرتیں ہیں‘ کچھ ہمارے سامنے ہیں‘ کچھ وہ ہیں جو ہر ایک کے سامنے نہیں۔خرابی اس بات میں ہو سکتی ہے کہ ہم کسی دوست ملک کے مسلسل محتاج رہیں‘ اس بات میں خرابی تلاش کرنا معقول رویہ نہیں کہ وہ دوست ملک ہر برے وقت میں ہماری مدد کیوں کر رہا ہے۔