سینیٹ الیکشن کی بدولت شہر اقتدار میں سیاسی گہماگہمی اور ممکنہ نتائج کی چہ میگوئیاں عروج پر ہیں۔اپوزیشن جماعتیں سینیٹ الیکشن میں حکومت کو دھوبی پٹکا لگا کر دھڑن تختہ کرنے کیلئے بیتاب ہیں تو حکومتی ارکان وزیراعظم کی طے شدہ حکمت عملی کے ذریعے اپوزیشن کو چاروں شانے چت کرنے کے درپے۔مطلوبہ نتائج کے حصول کیلئے ملک بھر میں سیاستدانوں سمیت بااثر افراد اور بزنس مین دن رات متحرک ہیں مگر ویڈیو اور آڈیو ریکارڈنگ کا خوف سبھی پرطاری ہے۔اہم حکومتی شخصیت کی جانب سے ریلیز کی گئی، ویڈیو کے بعدخریدوفروخت کے ماہرین یقینافول پروف انتظامات کرچکے ہوں گے مگر یہ طے ہے 3مارچ کو سینیٹ الیکشن میں قومی اسمبلی کے گیارہ ارکان کا کردار ملکی سیاسی تاریخ کو نئی جہت دے گا۔بلند وبانگ دعوؤں اور وعدوں کا نیا سلسلہ شروع ہو چکا مگر 2018میں کئے گئے وعدوں کا حساب کون دے گا؟ سینکڑوں دعوؤں کیساتھ وزیراعظم نے 50لاکھ سستے گھروں کی فراہمی کاوعدہ کیا تھا۔ ماہرین نے تخمینہ لگانے کے بعدرائے دی تھی، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کیلئے درکار اربوں ڈالر 5سال میں فراہم کرنا، حکومت کے بس کی بات نہیں ‘مگر وزیراعظم اپنے مصمم ارادوں اور بے لاگ دعوؤں کی طرح اس دعوے پر بھی ڈٹے رہے۔اب وزیراعظم کو ایک اعلیٰ سطح اجلاس کے دوران چیئرمین نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی نے دو ٹو ک اندازمیں واضح کیاہے کہ حکومت کی جانب سے صرف پہلے ایک لاکھ مکانات کے مالکان کو 3لاکھ روپے فی مکان سبسڈی فراہم کی جائے گی۔تعمیراتی شعبے کیلئے مطلوبہ فنڈزکی فراہمی ممکن نہیں۔مکانات کی تعمیر کیلئے نجی شعبے کو کردار ادا کرنا پڑے گا۔ یعنی حکومت مزید 49لاکھ سستے گھروں کا وعدہ پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ حکومت کی جانب سے سستے گھروں کی تعمیر کیلئے نجی شعبے کو راغب کرنے کیلئے پالیسی ترتیب دی گئی تاکہ نجی شعبے کی بہتر کارکردگی سے حکومتی دعوؤں کا بھرم رہنے کا ساماں ہوسکے۔نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی جانب سے صوبائی حکومتوں کے تعاون سے سستے گھروں کی تعمیر کیلئے حکومتی اور نجی اراضی پر شہری منصوبوں کے ساتھ ساتھـ‘اربن ری جنریشن پراجیکٹـ‘پیری اربن پراجیکٹ اور اخوت ماڈل پر گھروں کی تعمیر شامل ہے۔ وزیراعظم کو بتایا گیا ہے کہ نجی شعبے کی جانب سے57سفارشات پیش کی گئیں۔34منصوبوں کو تشخیص کے بعد قابل عمل قرار دیا گیا۔ جن کا کل رقبہ 20ہزار 258 کنال ہے۔تین منصوبوں پر تعمیراتی کام کا آغاز ہو چکا ہے جبکہ چار منصوبوں پراراضی کی بحالی کا کام جاری ہے۔27منصوبے منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہیں۔8منصوبوں پر31مارچ2021جبکہ 30جون2021تک 19منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔سرکاری اراضی پر شہری علاقوں میں گھروں کی تعمیر کیلئے45منصوبوں کی سفارشات پیش کی گئیں جن میں سے23سفارشات کو قابل عمل قراردیا گیا۔حکومت پنجاب کی جانب سے 9ہزار505کنال زمین شہری آبادی کے قریب فراہم کی گئی۔ان منصوبوں میں سنگجانی اسلام آباد 328کنال‘563کنال پر مشتمل نیا پاکستان ایل ڈی اے سٹی اپارٹمنٹ سکیم جس پر کام کا آغاز رواں ماہ ہونے کا امکان ہے۔یہ منصوبہ جولائی 2023ء میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔ زون Vاسلام آباد میں 1476کنال کا منصوبہ شامل ہے۔پیری اربن ہاؤسنگ منصوبے کی سفارشات کے تحت حکومت پنجاب کی جانب سے اسکیم کیلئے 3ارب روپے ادا کیے جائیں گے۔ہر گھر کیلئے اراضی کی بحالی کی لاگت3لاکھ روپے ہو گی۔ جس کو حکومت پنجاب کی جانب سے ادا کیا جائے گا۔گھر کی تعمیر پر 7لاکھ روپے خرچ کئے جائیں گے، جس کی ادائیگی بینک آف پنجاب کی جانب سے کی جائے گی۔ اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے افراد کی جانب سے 1لاکھ روپے ادا کیے جائیں گے۔ہر گھر کی لاگت 11لاکھ روپے ہو گی۔اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے افراد کی جانب سے 1سال کے اندر گھر تعمیر کیا جائے گا۔اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے افراد کی جانب سے7800روپے ماہانہ کی بنیاد پر ا قساط ادا کی جائیں گی۔فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی اور پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے منصوبوں کے تحت 139ارب روپے مالیت کے 35ہزار 725 مکانات کی تعمیر پر کام تعطل کا شکار ہے۔پاکستان کوارٹرز شہری تنظیم نو کے منصوبے میں پہلے سے موجود 32.12ایکڑ پر 390 مکانات موجود ہیں ۔منصوبے کے تحت6000مکانات تعمیر کیے جائیں گے ،جن کی کم سے کم لاگت35لاکھ روپے ہو گی۔ مختصر یہ کہ تمام ترکاوشوں کے باوجود عوام کیساتھ 50لاکھ سستے گھروں کی فراہمی کا وعدہ ادھورا رہے گا۔ سیاست کے داؤ پیچ اور نئے ہنر آزمانے کا سلسلہ شاید کبھی ختم نہ ہومگر خدارا!عوام کو دھوبی پٹکالگانے کا سلسلہ اب بند کردیجیے۔ اندرونی محاذ کے ساتھ وطن عزیز کو بیرونی محاذ پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے ،جس میں کلیدی کردار بھارت ادا کررہا ہے۔ویسے تو بھارت کی جانب سے دہشت گرد گروپوں کو ٹریننگـ‘مالی امداد اور پنا ہ گاہیں فراہم کرنے کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔2001سے پاکستان کو 19ہزار سے زائد دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا‘ جس کے باعث 83ہزار پاکستانی شہری جاں بحق جبکہ ملک کو126ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔بھارت کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی اور مالی معاونت کی جاتی ہے جبکہ تحریک طالبان کے منحرف گروپوں کا کنٹرول بھی بھارت کے پاس ہے۔گزشتہ سال اگست2020میں بھارت کی جانب سے حزب الاحرار اور جماعت الاحرار کے انضمام میں اہم کردار ادا کیا گیا۔ دونوں گروپوں کی افغانستان کے صوبے کنڑ اور ننگرہار میں مضبوط جڑیں ہیں جبکہ دونوں گروپس کو پاکستان نے کالعدم قرار دے رکھاہے۔بھارت ایف اے ٹی ایف کی کڑی شرائط کے باوجود حوالہ کے ذریعے دہشت گردوں کوبڑے پیمانے پر فنڈنگ میںملوث ہے۔ اقوام عالم کو دنیاکے امن کو سنگین خطرات سے دوچار کرنے والے بھارت کے خلاف دوہرا معیار ختم کرناہوگا۔ آخر میں ’شہریار‘ کا یہ شعر جو ذہن میں کلبلا رہا ہے: گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہوسکتی ہے !!!! اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے