ہم یہاں پاکستان میں تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں ۔دوسری طرف پرجوش سوڈانی عوام تیس برس کی فوجی آمریت کے بعد نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ ہفتے سے ہزاروں سوڈانی مردوزن اور پیرو جواں خرطوم کے فوجی ہیڈ کوارٹر کے سامنے جمع ہیں اور اپنے مطالبات کے حق میں ان کا دھرنا جاری ہے۔ وہ کیا چاہتے ہیں وہ کیا مانگتے اور کیا سوچتے ہیں اس حوالے سے تفصیلی معلومات آپ سے شیئر کروں گا مگر تھوڑا انتظار کیجیے۔ گزشتہ کئی روز سے میرے بہت سے قارئین اور دوست احباب مجھ سے رابطہ کر کے یہی مطالبہ کر رہے تھے کہ ہمیں بتائیے کہ سوڈان میں کیا ہو رہا ہے۔ وہاں انقلاب کون لایا ہے۔ کیا یہ کوئی فوج شب خون ہے اور کیا وہاں فوجی ڈکٹیٹر شپ کی تیس سالہ طویل سیاہ رات کے بعد کوئی تازہ دم عسکری انقلاب ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے رہا ہے۔ سوڈان میں ہو کیا رہا ہے؟ میں چند سال پیشتر جب طائف سعودی عرب میں مقیم تھا تو عرب بہارکا ہی نہیں عرب دنیا کی خزاں کا بھی چشم دید گواہ تھا۔ میں نے تیونس میں عرب بہار کے پہلے جانفزا‘ جھونکے کو دیکھا اور محسوس کیا اور ساری عرب دنیا کی خوشی اور سرمستی دیدنی تھی کہ اب یہاں آمریتوں کے دن گنے جا چکے ہیں اور پھر جب مصر میں عرب بہار نے کئی دہائیوں کی بدترین آمریت کے بعد جمہوریت کے دلفریب پودے کو کونپلیں نکالتے دیکھا تو ایک بار ساری عرب دنیا خوشی سے جھوم اٹھی۔مگر عرب دنیا میں جمہوری لہر کی اس باد بہاری نے بہت سے عرب ممالک کے ڈکٹیٹروں کی نیندیں اڑا دیں اس کے ساتھ ہی ان عالمی جمہوری قوتوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ جو عرب دنیا میں اپنے اقتصادی و سیاسی عزائم اور اسرائیل کے استحکام کے لئے ان آمروں کو اپنی انگلیوں پر نچا رہے تھے۔ منتخب جمہوری عرب حکمران تو بڑی قوتوں کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرتے تھے اسی لئے اخوان المسلمون کا پس منظر رکھنے والے محمد مرسی کی منتخب حکومت کا مصری آرمی چیف عبدالفتاح السیسی نے بیرونی قوتوں کی اعانت اور ایماء پر 2013ء میں صرف ایک سالہ جمہوری دور کے بعد ہی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ عرب دنیا کی اس عمومی تصویر کے بعد اب آئیے سوڈان کی طرف1989ء میں صادق المہدی کی جمہوری حکومت کا بوریا بستر گول کیا گیا۔ اس وقت عمر البشیر فوج میںبریگیڈیئر تھے۔ جب بھی فوج کی طرف سے کسی منتخب حکومت کا تختہ الٹتا ہے تو اس کا ایک ہی بڑا مقبول نعرہ ہوتا ہے کرپشن کا خاتمہ‘ احتساب پھر انتخاب۔ فوج کو اقتدار پر شب خون مارنے کا موقع بالعموم سیاست دانوں کے باہمی اختلافات کی بنا پر ملتا ہے۔ عمر البشر کے دور اقتدار کے آغاز میں ممتاز اسلامی اسکالر اور وہاں کی تحریک اسلامی کے رہنما ڈاکٹر حسن الترابی نے بھی عمر البشر کا ساتھ دیا۔1989ء میں انہوں نے وزیر خارجہ کا عہدہ قبول کر لیا اور پھر 1999ئ۔ 1996ء تک وہ سوڈان کی نیشنل اسمبلی کے سپیکر بھی رہے ۔ڈاکٹر حسن الترابی نہایت ہی عالم فاضل شخصیت تھے ۔انہوں نے خرطوم یونیورسٹی سے لاء کی ڈگری لی پھر یونیورسٹی آف لندن سے ایم اے کیا اور سار بون یونیورسٹی فرانس سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ڈاکٹر حسن الترابی کا وہی خواب تھا جو یہاں پاکستان میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کا خواب تھا۔ ساری اسلامی دنیا کی اسلامی تحریکوں میں مولانا مودودی اس لئے منفرد اور ممتاز مقام رکھتے تھے کہ وہ موجودہ دور میں نفاذ اسلام کے لئے جمہوریت کو اتنا ہی ضروری سمجھتے تھے جتنا انسانی زندگی کے لئے آکسیجن ضروری ہے۔ڈاکٹر حسن الترابی نے جب اپنے اسلامی مطالبات کے نفاذ پر اصرار کیا تو فوجی آمر عمر البشیر ان کے خلاف ہو گیا۔ عمر البشیر کے اپنے وعدے سے پھرنے ‘ کے بعد ڈاکٹر حسن الترابی فی الفور مستعفی ہو گئے اور فوجی آمر سے اپنے رستے جدا کر لئے ۔ ڈاکٹر حسن الترابی غالباً قاضی حسین احمد کے دور امارت میں پاکستان آئے تھے۔ منصورہ میں جب جماعت اسلامی کی خواتین کو خطاب کرنے کے لئے وہ اسٹیج پر پہنچے تو انہوں نے اپنے اور خواتین کے درمیان لٹکے ہوئے پردے کو دیکھ کر فرمایا’’واللہ ھذا خلاف السنتہ‘‘یہ تو سنت نبوی کے طریقے کے خلاف ہے۔ اس لئے میں خطاب نہیں کروں گا اور فی الواقع انہوں نے خطاب نہیں کیا۔ سراج وہاب ایک بہت ہی باصلاحیت نوجوان ہیں ۔انڈیا سے ان کا تعلق ہے انگریزی صحافت میں ممتاز مقام رکھتے ہیں اور نہایت خوبصورت اسلوب کے مالک ہیں۔ گزشتہ پندرہ بیس برس سے سعودی عرب کے مشہور انگریزی اخبار عرب نیوز سے وابستہ ہیں اور جدہ میں مقیم ہیں۔ عرب دنیا ہی نہیں عالمی منظر نامے پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ میں نے جب کبھی عالم عرب کے کسی سیاسی ایونٹ کو سمجھنے کی ضرورت محسوس کی تو ان سے رابطہ قائم کرتا ہوں۔ سراج بھائی سے میں نے سوڈانی انقلاب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ یہ کوئی فوجی انقلاب یا شب خون نہیں۔ یہ عوامی جمہوری انقلاب ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ سے سوڈان میں عمر البشیر کی آمرانہ حکومت کے خلاف زبردست احتجاجی تحریک چل رہی تھی۔ اس تحریک کو کچلنے کے لئے سوڈانی فوج نے عمر البشیر کا ساتھ دیا تھا۔ تاہم اب وہ مرحلہ آگیا تھا کہ اگر فوج عمر البشیر کا ساتھ نہ چھوڑتی تو عوامی غیظ و غضب کا جو ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جھوم کے اٹھا تھا اس کی بپھری ہوئی موجود کا رخ خود فوج کے خلاف ہو سکتا تھا اس لئے وہاں کی فوج نے دانشمندانہ قدم اٹھایا اور عمر البشیر کو اقتدار سے ہٹا کر اسے جیل میں بند کر دیا۔ فوج کی حکمران کونسل کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتاح البرہان ہیں اس کونسل کے عوام کے نمائندں کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اوپر میں نے عمر البشیر کے تین دہائیوں پر مشتمل دور اقتدار میں رونما ہونے والے دو ہیبت ناک سانحات کا ذکر کیا تھا۔ ان میں سے ایک سانحہ تو مغربی سوڈان کے صوبے دارفر میں اپنے ہی لوگ کے خلاف بدترین ملٹری آپریشن ہے جو کئی سال جاری رہا‘ جس میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ ہلاک کر دیے گئے ۔ اس سانحے کی تہہ میں ایک نسلی نوعیت کا اختلاف کارفرما تھا۔ اسے ہوا دے کر عمر البشیر نے اپنے ہی ملک کو بدترین قسم کی خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھایا۔ اب ہزاروں کی تعداد میں دارفر کے لوگ بھی خرطوم کی سڑکوں پر جمہوری حکومت کے لئے احتجاجی تحریک میں پیش پیش ہیں۔عمر البشیر نے محض اپنے آمرانہ اقتدار کی طوالت کے لئے عرب اوریجن اور افریقی اوریجن کے سوڈانی کی تفریق سے نفرت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی۔ ہم سب ایک ہیں ہم سب سوڈانی ہیں۔ دوسرا سانحہ سوڈان کے عیسائی اکثریت والے تیل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال صوبے کو الگ ملک بنانے کا سانحہ ہے۔2011ء میں عمر لبشیر نے عالمی دبائو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور الگ ملک بنانے کا راستہ ہموار کر دیا ۔سوڈانی سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی جمہوری حکومت ہوتی تو سوڈان ہرگز دو ٹکڑے نہ ہوتا۔ اس تقسیم در تقسیم کے بعد عرب دنیا میں سوڈان کو وہ حیثیت نہیں رہی جو جمہوری دورمیں ہوا کرتی تھی۔ گزشتہ پانچ ہفتوں سے خرطوم کے فوجی ہیڈ کوارٹر کے سامنے دھرنا دینے والے لاکھوں سوڈانیوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں نئی فوجی کونسل کا ایک روز کے لئے بھی اقتدار قبول نہیں۔ نیک نام سول ٹیکنو کریٹس کی عارضی حکومت تشکیل دی جائے اور فی الفور انتخابات کروا کے اقتدار عوامی نمائندوں کے سپرد کیا جائے۔ ان کا مطالبہ بڑا واضح اور بڑا غیر لچکدار ہے: پہلے انتخاب پھر احتساب