تجزیہ:سید انور محمود مضحکہ خیز یا قابل رحم اور یا پھر دونوں؟ سندھ کے دیہی اضلاع میں بلدیاتی الیکشن کے دوران مبینہ دھاندلی کی خبروں پر ایم کیو ایم کے وسیم اختر کی میڈیا سے گفتگو کوکیا سمجھا جائے ۔ایم کیو ایم پی پی کی قیادت والی صوبائی حکومت سے کچھ مختلف توقع کر رہی تھی تو اسے نادانی ہی کہا جا سکتا ہے ۔ کیا کئی عشروں سے ایسا ہوتا چلا نہیں آ رہا؟ سندھ کے دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی کا مضبوط ووٹ بینک ہے لیکن اب کچھ اور جماعتیں تیزی سے اس ووٹ بینک تک رسائی حاصل کر رہی ہیں اورپیپلز پارٹی یعنی زرداری ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ایم کیو ایم جس کا سکھر اور میرپورخاص جیسے شہروں میں بھی مضبوط ووٹ بینک تھا اور وہ تقریباً چاردہائیوں سے سندھ کی سیاست میں متحرک ہے ، اسے تو یہ بات زیادہ بہتر پتا ہونی چاہیے ۔ لیکن اس کے باجود، کچھ وجوہات کی بنا پر جو صرف اسے معلوم ہیں، ایم کیو ایم نے تحریک انصاف سے الگ ہونے اور متعدد بار کی طرح پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ ملنے کا فیصلہ کیا ہے ۔واضح طور پر ایم کیو ایم پاکستان نے ایک بار نقصان اٹھا کر دوبارہ محتاط ہونے والا سبق نہیں سیکھا کیونکہ اسے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار نقصان پہنچایا گیا ہے ۔پارٹی کے پاس یقیناً کراچی اور حیدرآباد میں اپنے ووٹروں سے معذرت کرنے کیلئے بہت کچھ ہے ۔پارٹی جب اپنے عروج پر تھی تو ان کیلئے بہت کچھ کر سکتی تھی۔ افسوس اس نے نہیں کیا یا وہ نہیں کر سکی۔پورا ملک اچھی طرح جانتا ہے کہ اُن سالوں میں کیا کچھ ہوا اور ہم سب دعا کرتے ہیں کہ کراچی کو ایسے حادثات دوبارہ پیش نہ آئیں۔ تجارت اور صنعت کے علاوہ کراچی کی دو طاقتیں تھیں: تعلیم اور ہنر۔ بدقسمتی سے اس عرصے میں ان دونوں کی تباہی ہوئی اور بیچارے نوجوانوں کو ایسی سرگرمیوں میں ملوث کیا گیا جن سے تباہی اور مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ شکر ہے کہ اب وہ تاریک باب بند ہوا اور آج پارٹی کی قیادت تعلیم یافتہ اور ذمہ دار لوگ کر رہے ہیں۔ لیکن کیا نئی قیادت کراچی کیلئے کچھ کر پا رہی ہے ؟ بدقسمتی سے نہیں۔ راستے میں رکاوٹیں اور بندشیں بھی بہت ہیں۔لیکن پھر یہ کہ پاکستان میں سیاست کمزور دل والوں کیلئے ہے اور نہ ہی کم ہمتوں کیلئے ۔ اپنا حق تو چھیننا پڑتا ہے ۔ یہ مانگنے کا معاملہ نہیں ہے ۔ ابھی تک ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹرز ایسا ہوتا تو نہیں دیکھ رہے ۔اگر کراچی کیلئے کوئی کام نہیں ہو رہا تو پھر وہ ماضی کے تجربے کے باوجود تحریک انصاف کو چھوڑ کر پہلے کئی بار کی طرح پیپلز پارٹی کے ساتھ کیوں گئی۔ سمجھداروں کو ایسا لگتا ہے کہ پارٹی ان فیصلوں کی یرغمال بن گئی تھی جو مکمل طور پر اس کے نہیں تھے ۔اس نے بے دلی سے تحریک انصاف کو چھوڑا اور بے دلی سے ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل ہوئی۔اس کے پاس کھوئے ہوئے مقام کو واپس حاصل کرنے کا یہی راستہ ہے کہ جرات کا مظاہرہ کرے اور پیپلز پارٹی کو چھوڑ دے ، تحریک انصاف کیساتھ اتحاد کئے بغیر۔اپنے کراچی نواز ایجنڈے کوقانون اور آئین کے اندر رہتے ہوئے جارحانہ طریقے سے آگے بڑھائے اور ایسا کرتی ہوئی نظر بھی آئے ۔اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کو اپنے مدقابل لے کر ایم کیو ایم پاکستان اپنا کام ختم کر چکی ہے ۔یہ دیکھنادلچسپ ہوگا کہ وہ موجودہ صورت حال کو کیسے سنبھالتی ہے اور مستقبل کیلئے کیسے تیاری کرتی ہے ۔ تجزیہ، انورمحمود