میں فوری طور پر فیصلہ نہیں کرسکی کہ عماد کو اس کے پلان پر عمل کرنے دوں یا جو لائحہ عمل میرا تھا ، اس کے مطابق عمل کیا جائے لیکن ضرور میرے دماغ نے بڑی تیزی سے سوچ کر عماد کا پلان کسی خطرے سے دوچار ہوئے بغیر کام یاب ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ عماد نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے بلند آواز میں کہا ۔ ’’ڈور ون اب ہمارے قبضے میں ہے ۔‘‘ ’’کون ہو تم ؟‘‘ چونک کر پوچھا گیا ۔ پوچھنے والی مسز راحت ہی تھی ۔ ’’اس سے تمہیں کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے ۔‘‘ عماد نے کہا ۔’’ہم ڈور ون کو یہاں سے لے جانا چاہتے ہیں اور ہمارے جانے کا بندوبست تمہی لوگوں کو کرنا ہے ۔‘‘ عماد جب بول رہا تھا تو کئی اور افراد کے قدموں کی آوازیں بھی سنائی دی تھیں جو دروازے کے قریب آرکی تھیں ۔ اس کے ساتھ ہی ایسا کچھ سنائی دیا جیسے وہ لوگ دھیمی آواز میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے ہوں ۔ یقینا یہ ان کے لئے قابل غور تھا کہ ڈرون کے کمرے میں کون پہنچ گیا ہے اور ڈرون کو یہاں سے کیوں اور کیسے لے جانا چاہتا ہے ! عماد نے ڈرون کے قریب رہتے ہوئے اس کے گال تھپتھپانا شروع کئے ۔ غالباً وہ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کررہا تھا۔ میں نے اس دوران میں فیصلہ کرلیا تھا کہ اس صورت حال سے نپٹنے کا فیصلہ بانو پر چھوڑ دوں، میں نے اپنے موبائل پر بانو کے موبائل کا نمبر ملایا لیکن موبائل اپنے کان سے نہیں لگایا ۔ دوسری طرف گھنٹی بجنے کی آواز مجھے بہت دھیمی سنائی دی جو عماد نہیں سن سکتا تھا۔ دو گھنٹیوں کے بعد دوسری طرف سے کال ریسیو کرلی گئی اور بانو کی دھیمی آواز سنائی دی ۔ ’’ہاں صدف!‘‘ میں نے اب بھی ان سے بات کرنے کے لئے موبائل کان سے نہیں لگایا اور بولی ۔ ’’وہ ہمیں یہاں سے نہیں نکلنے دیں گے عماد !‘‘ مجھے یقین تھا کہ میری دھیمی آواز بانو نے سن لی ہوگی ۔ ’’ ابھی تم دیکھ ہی لوگی کہ میں کیا کرنے جارہا ہوں ۔‘‘ عماد نے جواب میں کہا۔ دروازے کے باہر سے بلند آواز سنائی دی ۔’’ دروازہ کھولو ورنہ ہم اسے توڑ دیں گے !‘‘ یہ ایک مردانہ آواز تھی ۔ ’’ ڈرون کی زندگی سے کھیلنا چاہتے ہو تو ایسا ضرور کرو ۔‘‘ عماد نے کہا اس نے ڈرون کا گال تھپتھپاتے ہوئے اس کی تلاش بھی لے لی تھی اور ایک ریوالور نکال کر اپنے قبضے میں کرلیا تھا۔ مجھے بانو کی دھیمی آواز پھر نہیں سنائی دی ۔ غالباً انہوں نے سمجھ لیا ہوگا کہ میں کسی باعث ان سے بات نہیں کرنا چاہتی اور میرا مقصد صرف یہ ہے کہ انہیں وہ تمام آوازیں سنائی دے جائیں جو اس کمرے میں ہورہی تھیں ۔ ڈرون کو ہوش آگیا اور اس کے چہرے سے پریشانی ظاہر ہونے لگی ۔ عماد نے اپنا ریوالور اس کی پیشانی سے لگا کر کہاتھا۔ ’’تم خاموش رہو گے ۔‘‘ دروازے کے باہر سے بلند مردانہ آواز آئی ۔‘‘ تم کسی طرح بھی یہاں سے مسٹر ڈرون کو نہیں لے جاسکتے ۔‘‘ اس وقت میں بول پڑی ۔ہم نہ صرف مسٹر ڈرون کو یہاں سے لے جائیں گے بلکہ اس آدمی کو جسے میں نے مسٹر ڈرون کے حوالے کیا تھا۔ دروازے کے باہر جو لوگ موجود تھے ،وہ میری آواز سن کر یقینا چونک گئے ہوں گے ۔ ’’تم کون ہو ؟‘‘ باہر سے پوچھا گیا ۔ ’’میری بات سے تم لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ میں کون ہوں ۔میں وہی ہوں جو تھوڑی دیر پہلے ڈورون سے ملنے آئی تھی ۔ تم لوگ بے وقوف ہو جو اتنا بھی نہیں سمجھے ! کیا کوئی اور عورت یہاں آئی ہے جس نے کسی آدمی کو ڈورون کے حوالے کیا ہو؟‘‘ باہر پھر سرگوشیاں سنائی دینے لگیں ۔ عماد میری بات سن کر ذرا بھی نہیں چونکا ۔ غالباً وہ اس بات سے بھی با خبر تھا کہ میں نے کسی آدمی کو ان لوگوں کے حوالے کیا ہے وہ میری طرف دیکھ کر بولا ۔مجھے اس کا اندازہ نہیں کہ تم نے اپنے کسی آدمی کو ان لوگوں کے حوالے کیوں کہا تھا! ’’وہ بعد میں بتائوں گی ۔ ابھی میرے آدمی کو یہاں آجانے دو۔‘‘ دروازے کے باہر سے آواز آئی ۔تم لوگوں نے مسٹر ڈورون کو یرغمال بنا لیا ہے تو سمجھ لو کہ وہ آدمی اب ہمارے قبضے میں ہے ۔ ہم اسے تمہارے حوالے کردیں گے اگر تم مسٹر ڈورون کو چھوڑدو۔‘‘ ’’اتنا بے وقوف تو نہ سمجھو ہمیں !‘‘ عماد نے سخت لہجے میں کہا ۔‘‘اپنے آدمی کے بدلے میں اگر ہم نے ڈرون کو چھوڑ دیا تو کیا تم لوگ ہم تینوں کو یہاں سے زندہ نکل جانے دو گے ؟‘‘ ’’ ہم وعدہ کرتے ہیں ۔‘‘ جواب دیا گیا ۔ ’’بکواس۔‘‘ میں بول پڑی ۔بے وقوف بنانے کی کوشش نہ کرو اور ہمارے آدمی کو یہاں پہنچا دو اور اس کا بندوبست کرو کہ ہم ڈورون کو لے کر یہاں سے نکل جائیں ۔‘‘ پھر عماد بھی بول پڑا۔ ’’ہم یہاں سے جانے کے لئے تم لوگوں کا ہیلی کاپٹر استعمال کریں گے ۔‘‘ اس دوران میں ڈورون بالکل خاموش رہا تھا، اس کے چہرے سے پریشانی کا تاثر ختم نہیں ہوا تھا۔ اس نے بس اپنے ہونٹ بھینچ لئے تھے۔’’جلدی یہاں پہنچائو ہمارے آدمی کو ‘‘ عماد نے غصیلی آواز میں کہا ورنہ تم لوگوں کو اپنے باس ڈرون کی چیخیں سنائی دینے لگیں گی، چاقو سے ہم اس کا ایک کان کاٹ لیں گے، عماد نے یہ کہتے ہوئے اپنی جیب سے ایک چاقو بھی نکال لیا۔ اس وقت ڈرون کے چہرے پر خوف کا ذرا سا بھی تاثر نہیں دکھائی دیا۔ باہر پھر سرگوشیاں ہونے لگیں۔ اب عماد نے ڈرون ہی سے کہا اپنے آدمیوں کو حکم دو کہ وہ اس آدمی کو فورا یہاں پہنچادیں ورنہ میں تمہارے کان کا ایک حصہ کاٹ دوں گا، یہ صرف دھمکی نہیں ہے اور تمہیں ہم یہاں سے اس لئے لے جانا چاہتے ہیں کہ تم سے کچھ معلومات حاصل کرسکیں۔‘‘ ’’تم مجھے یہاں سے نہیں لے جاسکو گے‘‘ ڈورون نے پہلی مرتبہ زبان کھولی‘‘ تم جب میرے ساتھ یہاں سے نکلو گے تو تم دونوں کو گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔‘‘ اگر ہماری قسمت میں ایسی موت لکھی ہے تو یہی سہی‘‘ عماد نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ یقینا اس نے کوئی ایسا پلان سوچ لیا ہوگا کہ ہمیں کوئی گزند نہ پہنچ سکے۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ بانو نے ان باتوں سے ساری صورتحال سمجھ لی ہوگی، بس یہ اندازہ میں نہیں لگاسکتی تھی کہ وہ ان حالات میں کیا فیصلہ کریں گی۔ کیا ڈورون کو وہاں سے اغواء کیا جاسکا؟ یہ ڈرامائی تفصیل اگلی قسط میں پڑھیئے!