سابق وزیر اعظم عمران خان نے جس اندا ز میں کرکٹ کھیلی اسہی انداز میںاپنے نیچرل سٹائل میں پورے رن اپ کیساتھ سیاسی میدان میں بائونسر مار رہے ہیں ۔ اب سیاسی میدان میں وہ ویسا ہی جوش دکھانے کے خواہش مند ہیں۔ستر سال کی عمر ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے فٹنس کا بڑا خیال رکھا ہے لیکن گزرتی عمرکیساتھ ان کے پیس بیٹری کمزور ہوچکی ہے۔ فٹنس کیساتھ ضرور چند اچھے اوور کروا سکتے ہونگے لیکن اب ٹیسٹ میچ میں لمبے سپیل کروانا آسان نہیں ہوگا اور شومئی قسمت ان کے ساتھ ان کی سیاسی ٹیم میں دو سرے اینڈ سے ایسا کوئی ایک بھی بائولر نہیں جو وسیم اکرم وقار یونس یا عاقب جاوید جیسی صلاحیتیں رکھتا ہو۔ جہاں ان کے جوش اور عمران خان کے تجربے کا امتزاج جاری اننگز میں بیٹنگ ٹیم کو ڈھیر کردے۔ یہاں تک کہ فاسٹ بائولر چھوڑیں مشتاق احمد جیسا کوئی اچھا اسپنر بھی نہیں جسکی گھومتی گیندوں پر حکومت گھبراجائے اور کپتان کچھ سکون کا سانس لیں۔ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ایسا لگ رہا ہے کپتان سمجھتے ہیں چند وکٹیں گرتے ہی بیٹنگ ٹیم ڈھیر ہوجائیگی۔اس کام کیلئے جو حکمت عملی کپتان نے اختیار کی ہے اور اس پر جیسے عمل در آمد کررہے ہیں یہ ان کے جارحانہ مزاج کا حصہ ہے۔ ان کا یہ مزاج کرکٹ کے زمانے سے بنا اورکرکٹ کے میدان میں کامیاب بھی رہا۔ بانوئے کا ورلڈ کپ جیت کر کپتان نے ثابت کیا کہ جارح مزاج اختیار کرکے نہ ممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ کرکٹ کے میدان کی طرح جارحانہ حکمت عملی سیاسی میدان میں میں کامیاب ہو۔ اگر کپتان کی حکمت عملی کامیاب ہوگئی تو سیاسی منظر نامے میں وہ کچھ بدلے گا جسے دیکھ کر یقین نہیں ہوگا۔ جو پاکستانی سیاست میں معجزہ ہی ہوگا۔ کپتان اپنے خلاف عدم اعتماد آنے کے بعد ابتداء میں نارمل موڈ میں رہے لیکن تئیس مارچ کے بعد وہ لائن اور لینتھ بھول کر شارٹ پچ گیندیں کروانے لگ گئے تھے۔ جسکا سلسلہ تاحال جاری ہے یہاں تک کہ جن بلے بازوں کو ایک آدھ اوور میں کچھ ریلیف دے رہے تھے۔ پشاور جلسے میں ان پر بھی شارٹ آف لینتھ گیندیں پھینکتے رہے کراچی میں بھی اسہی حکمت عملی کیساتھ میدان میں اترے لاہور میں کچھ مزید اہم کھلاڑیوں پر بائونسرز مارنے کا ارادہ رکھتے تھے تاہم ایک آدھ بائونسر کے بعد ایک آدھ گیند گڈ لینتھ پر کرکے انہوں نے کراچی کا سیشن گزارا کراچی میں انہوں نے عدلیہ پر یکے بعد دیگرے بائونسر برسائے اور جنرل ر پرویز مشرف کا نا م لیکر غیر محسوس انداز میں کچھ شارٹ آف لینتھ بائولنگ کا مظاہرہ کیا۔ تاہم سیدھے بائونسر یا بیمر مارنے سے گریزاں رہے۔ جس حکمت عملی پر کپتان چل نکلیں ہیں اسکی وضاحت کی ضرورت نہیں لیکن کپتان کو یاد رکھنا ہوگا کہ اگر بائولنگ میں ورائیٹی کی جگہ جارحانہ مزاج لے لے اور لائن لینتھ چھوڑ کر بائونسر اور بیمر مارنے کیلئے جس توانائی کی ضرورت ہوتی ہے وہ اب بڑھتی عمر کی وجہ سے اسپیڈ بھی کم ہوچکی ہے۔ عدم اعتماد کے پیش ہونے کے بعد کپتان نے جو بیانیہ ترتیب دیا اسے ایک جذباتی بیانیہ تو کہا جاسکتا ہے اسکی تشہیر جس انداز میں کی گئی اس بیانئے کی حالت بھی پینتیس پنکچر سے مختلف نہیں ہے کیونکہ جو لوگ سفارتی مشنز یا انکے وزارت خارجہ کے کام سے واقف ہیں تو وہ جانتے ہیں کہ سفیر کا بھیجا گیا مراسلہ ایک معمول کا معاملہ ہے جو ممالک دنیا میں بڑی طاقت تصور ہوتے ہیں وہ ترقی پذیر یا معاشی طور پر کمزور ممالک کو یا تو سرمایہ کاری کرکے یا قرضے اور ریلیف پیکجز دیکر یا ڈرا دھمکاکے اپنے ساتھ جوڑ کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اس بات کی تصدیق راقم نے متعدد سابق سفیروں سے کی ہے یہاں تک اقوام متحدہ پاکستان کی سابق مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے گزشتہ رات ایک نجی ٹی وی کو بتایا کہ ایسی دھمکیاں ملنا معمول کی بات ہے اور ایسی دھمکیوں کے باقاعدہ اسہی انداز میں اور عملی طور پر بھی جواب دیئے جاتے ہیں۔ اسلئے پاکستان تحریک انصاف کو چاہئے کہ وہ اس بیانیئے کا پرچار بند کرے ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے جو صورتحال بتائی وہ حقیقت کے قریب لگتی ہے کیونکہ پاکستان کو طاقتور ممالک نے کب ڈرانے یا دھمکانے کی کوشش نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سیفد ہاتھی کسے کہا تھا کیا انہیں ایٹم بم بنانے سے روکنے کیلئے نہیں دھمکایا گیا تھا ؟؟؟ میاں نواز شریف کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کیلئے پہلے معاشی پیکج کا لالچ نہیں دیا گیا نہ ماننے پر طاقتور ملک کے رویئے نہیں بدلے تھے اسلئے وزیر اعظم اگر اس ڈپلومیٹک کیبل کو مداخلت کہتے تو بہتر تھا سازش کہنا درست نہیں لگتا کیونکہ اس سازش کو ثابت کئے بغیرسابق وزیر اعظم عمران خان پینتیس پنکچر جیسا بیانیہ تو بنا سکتے ہیں لیکن جو حاصل کرنا چاہتے ہیں اسکا حصول آسان نہیں ہوگا۔ سابق وزیر اعظم عدم اعتماد کے پیش ہونے کے بعد اس جارحانہ حکمت عملی میں شارٹ آف لینتھ تھکا دینے والے سپیل کے آغاز کے بجائے اگر اس وقت اپنی شکست کو قبول کرکے دوسری اننگز میں نپی تلی بائولنگ کیساتھ اننگز کا آغاز کرتے اور اپنی پچھلی غلطیوں کو مارک کرکے اس میچ کو کسی طرح ڈرا کی طرف لے جاتے اور دو ہزار تئیس کے ٹیسٹ میچ کی تیاری میں جت جاتے تو ملک کے سیاسی لینڈ اسکیپ پر ٹاپ تین جماعتوں میں شامل رہتے اب انکا مستقبل کیا ہوگا اسکا فیصلہ کپتان کی بائولنگ کی حکمت عملی پر منحصر ہے۔ جس طرح عدلیہ کے حوالے سے کپتان نے کچھ نو بالز پشاور میں کر وائیں اگریہ سلسلہ نہیں رکا تو بیانئہ بنے یا نہ بنے اداروں سے ٹکرائو کے نتیجے میں جو صورحال پیدا ہوگی کپتان کیلئے نہ صرف جاری میچ بچانا مشکل ہوجائیگا بلکہ کہیں اگلے ٹیسٹ سے قبل رولز اینڈ ریگولیشن کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو وہ اورانکی جماعت سیریز سے باہر نہ ہوجائے اسلئے کپتان پانی یا چائے کے وقفے میں اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کریں اور پلان کو تبدیل کریں کیونکہ ا گر پاکستان کی پارلیمانی سیاست کا مزاج امریکہ مخالف بیانئے پر بدلتا ہوتا تو آج پاکستان کا وزیر اعظم کسی مذہبی جماعت بالخصوص جماعت اسلامی سے ہونا چاہئے تھا۔ اس لئے کپتان سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کریں۔ باقی کپتان جذباتی اور جارح مزاج ضرور ہیں انکے نائب کپتان ملتان والے سمجھدار ضرور ہیں۔