ملک کی صنعتی ترقی میں فیصل آباد بہت بڑا نام ہے ، ایک وقت تھا جب لائل پور کے دوکاندار ملتان سے کپڑا لے کر جاتے تھے ، آج ملتان کی کلاتھ مارکیٹ فیصل آباد کی ہول سیل کلاتھ مارکیٹ کے مقابلے میں چھوٹی سی دوکان محسوس ہوتی ہے ، تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو فیصل آباد ہمیشہ ملتان کا حصہ رہا کہ یہ علاقہ جھنگ میں آتا تھا ، لائل پور جب ضلع بنا تو اسے لاہور کے ساتھ منسلک کیا گیا ۔ تقسیم کے وقت پنجاب کے ڈھائی ڈویژن پاکستان کے حصے میں آئے ، ایک ملتان ، دوسرا پنڈی جبکہ آدھا ڈویژن لاہور پاکستان کو ملا ۔ قیام پاکستان کے وقت ملتان ڈویژن میں جھنگ، میانوالی ، مظفر گڑھ اور ڈی جی خان کے اضلاع شامل تھے ۔ جھنگ کو بھی ترقی ملنی چاہئے کہ فیصل آباد نے جھنگ کے وجود سے ہی جنم لیا ، ہم جھنگ کی بات کریں گے مگر اس سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فیصل آباد کو پاکستان کی ترقی کا ہب کہا جاتا ہے ، صنعتی طور پر اسے مزید ترقی یافتہ بنانے کیلئے فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کے نام سے 3217 ایکڑ رقبے پر مشتمل نیا شہر آباد ہونے جا رہا ہے ، ملک کے تمام پسماندہ اور محروم علاقوں کو ترقی کے برابر مواقع ملنے چاہئیں کہ اس سے پاکستان مضبوط ہوگا۔ فیصل آباد کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ، یہ شہر جھنگ کی ساندل بار کا حصہ ہے ۔ ساندل بار میں 1890ء میں آباد کاری شروع ہوئی ، 1895ء میں پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ سر جیمز لائل نے اپنے نام پر اس شہر کی بنیاد رکھی ، اس شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی ٹاؤن پلاننگ عالمی شہرت یافتہ ٹاؤن پلانر سر گنگا رام نے تیار کی ،1896ء میں لائل پور جھنگ کی نئی تحصیل بنی ، 1900ء میں اسے جھنگ سے الگ کر کے ضلع کا درجہ دے دیا گیا ۔ 110 مربع ایکڑ زمین پر یہ شہر قائم ہوا ،درمیان میں گھنٹہ گھر اور چاروں طرف گول دائرے کی شکل میں پھوٹتے ہوئے آٹھ کشادہ بازار جن میں ریل بازار، جھنگ بازار، کچہری بازار، چنیوٹ بازار ، بھنوانہ بازار، امین پور بازار ، منٹگمری بازار اور کارخانہ بازار بنائے گئے ، شہر کی تعمیر 1903ء میں شروع ہوئی اور 1906ء میں یہ تکمیل کو پہنچی۔ شہر کی تعمیر میں آگرہ میں تاج محل بنانے والے معماروں نے بھی حصہ لیا ۔ گھنٹہ گھر کا گھڑیال بمبئی میں تیارہوا ۔ 1910ء میں ریلوے لائن بچھائی گئی ، 1982ء میں اسے ڈویژن کا درجہ دیا گیا اور لائل پور کو سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل شہید کے نام پر فیصل آباد کا نام ملا ۔ 1961ء میں لائل پور کے زرعی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیدیا گیا اور لائل پور کو ترقی کے نئے مواقع میسر آئے ۔ ہم جھنگ کی بات کریں تو یہ حقیقت ہے کہ جھنگ ایک شہر نہیں ایک مکمل تہذیب کا نام ہے ۔ اس میں کئی ضلعے اور کئی ڈویژن آتے ہیں ۔ ڈویژن ؟ اس بات پر حیران نہ ہوں۔ بات صرف لائل پور کی نہیں ، ٹوبہ اور چنیوٹ بھی جھنگ کی تحصیلیں تھیں ۔ ساہیوال ، سرگودھا ، وہاڑی ، خانیوال ، حافظ آباداور اوکاڑہ کے اضلاع بھی جھنگ لہجے کی سرائیکی زبان پورے اعزاز کے ساتھ بولی جاتی ہے ۔ جھنگ کی سرزمین زرخیز ہونے کے ساتھ بہت مردم خیز بھی ہے ۔ اس دھرتی پر بڑے بڑے شاعر ، ادیب ، فنکار، دستکار ، موسیقار ، سائنسدان اور سیاستدان اور بدیسی حکمرانوں سے ٹکر لینے والے دُلابھٹی اور احمد خان کھرل جیسے حریت پسند بھی پیدا ہوئے ۔ جنہوں نے حملہ آوروں اور بدیسی حکمرانوں کے ساتھ جنگ کر کے ان کو ناک چنے چبوا دیئے ۔641ء میں چینی سیاح ہوانگ نے جھنگ کی سر زمین کا ذکر بہادر لوگوں کی سر زمین کے طور پر کیا اور لکھا کہ یہ وہ خطہ ہے جنہوں نے قبل مسیح سکندر کا مقابلہ کیا ۔ انگریزوں کا یہ امتیازی سلوک بھی ملاحظہ ہو کہ جھنگ کو 1880ء میں میونسپلٹی کا درجہ اس وقت مِلا جب ’’ لائل پور ‘‘ پیدا بھی نہ ہوا تھا ۔ حریت پسندوں کی طرف سے انگریز کو ٹف ٹائم دینے پر جھنگ کے لوکوں کو پہلے سزا کے طور پر ’’ جانگلی ‘‘ کا خطاب ملا ، پھر جھنگ کے مقابلے میں شیخوپورہ کے ایک پِنڈ کو لائل پور کے نام سے آباد کیا گیا ، پھر اس کو جھنگ کی تحصیل بنا دیا گیا ۔ پھر اس کو ضلعے کا درجہ دے دیا گیا ۔ بعد میں کل کے لائل پور اور آج کے فیصل آباد کو ڈویژن کا درجہ دیا اور جھنگ کو ’’ فیصل آباد کمشنری ‘‘ کا حصہ بنا دیا گیا ۔ جھنگ علم و ادب کا خزانہ ہے ، اس سرزمین کو علمی اعتبار سے طاقتور بنانے میں شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں اور فنکاروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ، عالمی شہرت یافتہ شاعر مجید امجد ، جعفر طاہر ، عبدالعزیز خالد، شیر افضل جعفری، محمودشام اور سرائیکی شعراء عابد تمیمی ، شفقت عباس شفقت، فضل بلوچ ، مہر ریاض حیات بھٹی، ریاض ابرار، غلام یٰسین ، تاج حیدر، رب نواز ہاشمی، اللہ دتہ عاطف، غلام محمد درد ، دانش چراغ مولائی، میاں عاجز ، فضل بانو، غلام حسین چھنہ، رفیق واگھراہ، سائیں حیدر ممتاز بلوچ، اسعد بسمل ، آصف راز، سید احمد چنالی ، غلام حسین جاوید، امتیاز بلوچ، لطیف شیدائی ، صابر سودائی، تنویر گیلانی، مہر نظیر ، منور نادان ، انور راز، ممتاز آصف ، شوقی بلوچ ، بے تاب شہباز ، میاں مشتاق ، شازیہ ناہید اور سرائیکی فوک سنگر منصور ملنگی ، طالب درد ، اللہ دتہ لونے والا ، آصف لونے والا اور دیگر سینکڑوں نے علم و ادب میں اپنا نام کمایا۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے بھی میری یہی گزارش ہے کہ وہ اپنے اپنے بنی گالہ، اپنے اپنے تونسہ ہاؤس اور اپنے اپنے جاتی امرا اور سرے محلات سے باہر نکل کر اپنے وطن کے ایک ایک شہر ایک ایک قصبے اور ایک ایک دیہات کی تاریخ ثقافت زبان ادب اور ضروریات سے آگاہی حاصل کریں۔یہ بھی عرض کروں گا کہ انگریز نے پانی ضرورتوں کے تحت جو صوبائی حد بندیاں بنائیں ، ان کوختم کریں اور وسائل کی مساویانہ تقسیم کر کے انگریز استعمار کے امتیازی رویوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دینا چاہیے۔تاکہ وطن کے ایک ایک باشندے کو اس کا احساس ہو کہ ہم انگریز سامراج کی غلامی سے واقعی آزاد ہو چکے ہیں۔جھنگ والوں کوحکمران جانگلی کہتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس بات کی تاریخ جاننے کیلئے ایک نئی تاریخ لکھنی پڑے گی اور اس پچھلی جھوٹی تاریخ کو پھاڑنا ہو گا جو ہر وقت حملہ آوروں کے وفاداروں کو ’’ معزز ‘‘ اور حملہ آروں کے ساتھ لڑنے والوں کو ’’ جانگلی ‘‘ بناتی ہے ۔