آج صبح سے عبیداللہ علیم کی ایک غزل کے دو شعر جانے کیوں یاد آ رہے ہیں۔ علیم ایک طرحدار شاعر ہی نہیں‘ بڑی جاندار شخصیت کا مالک بھی تھا۔ ٹوٹ کر محبتیں کیں اور ڈٹ کر دشمنیاں لیں۔ کیا مزے کی بات کی ہے ؎ عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے میں سوچ میں ہوں کہ آج اس شعر کا طاری ہونا کس کارن ہے۔ ٹھیک ہے ہم مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں ضرورت ہے کہ کوئی حوصلہ دے۔ محبت اور شفقت کا اظہار کرے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ چاہنے والے سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اتنی ہی محبت کافی ہے کہ بس ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں نہ کہ اس محبت میں اتنی شدت ہو کہ سانس لینا بھی دو بھر ہو جائے۔ گاہے گاہے محبت کی زیادتی بھی پریشان کر دیتی ہے۔ یہ نہیں کہ آدمی شک میں مبتلا ہو جاتا ہے بلکہ یہ کہ اس کی سہار نہیں رکھتا۔ کیا وجہ ہے یہ خیال آج آ رہا ہے۔ ادا تو کوئی بات نہیں بس شہزادہ ہمارے ملک میں قدم رنجہ فرما رہا ہے۔ اس کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس وزیراعظم ہائوس کو جس کو عیاشی اور فضول خرچی قرار دے کر ہم نے تگ دیا تھا اور اسے یونیورسٹی بنانے کا اعلان کردیا تھا‘ اسے دوسری بار مہمان نوازی کے لیے ضروری سمجھا ہے۔ پہلی بار تو خیر متحدہ عرب امارات کے شہزادے کو آنا تھا۔ انہوں نے تو اسلام آباد ٹھہرنا نہ تھا‘ قیام تو انہوں نے ہمارے صحرا میں کیا تھا‘ اس لیے ہم نے انہیں یہاں صرف گارڈ آف آنر پیش کیا یا چھوٹی موٹی میٹنگ کر کے انہیں رخصت کیا۔ اگرچہ ہمیں ان کی اہمیت کا اندازہ بھی تھا۔ یہ نہیں کہ وہ ایک امیر ملک کے شہزادے ہیں‘ بلکہ عالمی سطح پر آنکھوں کے تارے بھی ہیں۔ پر کیا کریں وقت بھی اتنا ہی تھا۔ اب جو سعودی شہزادے آ رہے ہیں‘ وہ گویا شہزادوں کے شہزادے ہیں۔ ان کی تکریم ہم پر فرض ہے۔ اس لیے ہم نے ان کی رہائش کا بندوبست اسی وزیراعظم ہائوس میں کیا ہے جس کی انیکسی میں شاید ہمارے اپنے وزیراعظم رہتے ہیں۔ بڑی آب و تاب سے شہزاد کا سامان پہنچا دیا گیا ہے اور سکیورٹی کے وہ سب انتظامات کردیئے گئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہمارا مہمان کتنا اہم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا سعودی مہمان ہمیں بہت عزیز ہے۔ اپنی موجودہ زبوں حالی کی وجہ سے ہم یہ بھی اعلان کر رہے ہیں کہ شہزادہ بہت بڑی سرمایہ کاری بھی لے کر آ رہا ہے۔ گوادر کے پاس ریفائنری لگا رہا ہے‘ ہم اپنے عرب دوستوں کی مدد سے دوسری ریفائنری بھی لگائیں گے۔ ہمیں ان سے اور بہت کچھ بھی درکار ہے جو سب مل جائے گا۔ ان کی محبتوں کی کوئی انتہا ہی نہیں‘ ہمیں سب کچھ ملے گا۔ بس محبت کی یہ فراوانی ہی ہمیں پریشان کئے دے رہی ہے اور ہمیں اس پر عبیداللہ علیم کا شعر یاد آرہا ہے۔ ہمیں یقین نہیں آ رہا کہ ہم اتنی محبت کے سزاوار کیسے اور کیوں ہو گئے۔ اسے بداعتمادی کہہ لیجئے یا خود پر عدم اعتماد‘ کچھ بھی کہہ لیجئے۔ ہمارا حال ایسا ہی ہوگیا ہے کہ کوئی ہم سے محبت بھی کرتا ہے تو ہم گھبرا جاتے ہیں کہ یہ آخر ایسا کیوں کر رہا ہے‘ ہم میں کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں حالانکہ سعودی عرب تو ہمارا وہ دوست ہے جس کی طرف ہم نے ہر مشکل وقت میں دیکھا ہے‘ بلکہ مشرق وسطیٰ کو ہم نے کبھی خود سے الگ محسوس نہیں کیا۔ ہمیشہ یہ سمجھا ہے کہ ہر مشکل وقت میں وہ ہمارا ساتھ دیں گے۔ گزشتہ دنوں جو ذرا ہم کٹے کٹے سے تھے‘ تو بھی ایک دوسرے سے دور دور نہ تھے۔ دل و جان سے قریب تھے۔ پھر ہمارا حال ایسا کیوں ہے۔ ایسا ہی حال ہمارا چین کے بارے میں ہو گیا ہے۔ چین نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے‘ اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے‘ ہر عالمی فورم پر چین ہی ہمارا واحد اور آخری سہارا رہ گیا تھا۔ کتنی بار چین کی مخالفت کے ڈر سے عالمی اداروں میں دشمن کنی کترا جاتے تھے یا منہ کی کھاتے تھے۔ اس نے ون روڈ ون بیلٹ کے اپنے منصوبے کو بھی سب سے زیادہ اہمیت پاکستان میں دی۔ دشمن نے کہا کہ اسے کم از کم سی پیک نہ کہو یعنی چائنا پاکستان راہداری کا نام نہ دو۔ چین نے انکار کردیا اور کہا جائو اپنا کام کرو۔ پاکستان سے ہماری محبت ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے۔ یہ شہد سی میٹھی ہے۔ امریکہ کو سمجھایا‘ ہمارا پاکستان سے وہی تعلق ہے جو آپ کا اسرائیل سے ہے۔ ہمیں اس پر بھی تشویش ہوئی۔ کسی نے کہا ایسٹ انڈیا کمپنی پھر تو نہیں آ رہی‘ اب کی بار سی پیک کی صورت میں‘ کسی نے کہا یہ اتنا قرض ہم کیسے ادا کریں گے۔ چین نے ہمارا لاجسٹک اور انرجی کا مسئلہ تقریباً طے کردیا ہے اور ہم ہیں کہ پوچھ رہے ہیں کہ سب کچھ شفاف تو ہے‘ کسی نے کمشن تو نہیں لی۔ وہی بات ناکہ زیادہ محبت بھی ہمیں راس نہیں آتی۔ ہم گھبرا جاتے ہیں اور کہتے ہیں‘ بس اتنی محبت چاہیے جس سے ہم دل گرفتگاں کو حوصلہ مل جائے‘ اتنی نہیں کہ ہم سہار نہ سکیں۔ محبت سہارنا بھی حوصلے کی بات ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے اصل مسئلہ کہیں اور ہے۔ وہ شاید ان محبتوں اور نفرتوں کے پیچھے امریکہ کی مہربانیاں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے ہمارے بعض معاملات پر بہت مدد کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی محبت میں بڑا پوزیسو ہو۔ اس نے ہمیں ہمیشہ باندھ کر رکھا ہے۔ کہیں اور جانے ہی نہیں دیا‘ ان دنوں بھی اس کا غصہ بڑی شدت سے ظاہر ہوا۔ دور ہو جائو سی پیک سے۔ افغانستان میں صرف ہمارے ہو کر رہو‘ اپنے فائدے کی بھی بات نہ کرو۔ ہم ابھی اس صدمے میں تھے کہ اچانک پیام آیا‘ سب کچھ بھول جائو‘ آئو پھر سے دوست ہو جائیں‘ مل کر افغانستان کا مسئلہ حل کرتے ہیں۔ پھر چاروں طرف سے ہن برسنے لگا۔ یوں لگا جو کل تک ناراض تھے‘ پھر سے دوست بن گئے۔ جو دروازے ہم پر بند تھے‘ وہ پھر کھلنے لگے‘ دراصل یہاں مجھے علیم بھائی کا دوسرا شعر یاد آ رہا ہے جو اسی غزل کا ہے۔ میرا خیال ہے ہمارے ڈر کی اصل وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ پہلے شعر سن لیجئے ؎ محبتوں میں لگا ہے دلوں کو دھڑکا سا کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے اب اسے اس عہد بے وفا کی نفسیات کہہ لیجئے‘ ہماری ذہنی کیفیت سے تعبیر کرلیجئے‘ ہمارا اندر کا خوف سمجھ لیجئے یا ان حالات کا تقاضا قرار دے دیجئے جس سے ہم گزرے ہیں۔ کچھ بھی کہہ لیجئے۔ ہمارا یہی حال ہے۔ ابھی دیکھئے‘ اس دورے کو مکمل ہونے دیجئے‘ ہم کیسی کیسی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ علیم کے ان شعروں پر نقادوں نے گرہ لگائی تھی۔ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ یہ عہد‘ محبت کا عہد ہے ہی نہیں۔ اپنا مسئلہ مگر ذرا انفرادی سا بھی ہے کہ شاید ہم ہی محبت کے قابل نہیں رہے۔ خدا جانے کون سی بات درست ہے!