یورپ یا امریکہ میں جو پاکستانی پہلے سے آباد ہیں ان کا جینا مرنا اگرچہ یہاں ہی ہے لیکن پھر بھی اپنے وطن عزیز پاکستان کی مٹی سے ان کی محبت اور وفا لازوال ہے۔ وہ جیتے جی وطن سے لاتعلق نہیں رہنا چاہتے۔ عمران خان جب 2018ء میں وزیراعظم منتخب ہوئے تو اہل پاکستان کی طرح بیرونی ممالک میں بھی پاکستانیوں کے دل میں ایک امید کی کرن نے انگڑائی لی تھی کہ اب پاکستان میں حالات بدلیں گئے۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ واحد لیڈر ہیں جن کے نعروں اور دعوئوں سے لوگ مرعوب ہوئے۔عام لوگ بھی سیاست میں دلچسپی دکھانے لگے پھر لیکن جْوں جْوں سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کا ماحول پیدا ہوا اور عمران خان کی حکومت کو گرانے کی خبریں عام ہورہی ہیں۔ تارکینِ وطن پاکستانیوں کی نبض بھی تیزی سے دھڑکنے لگی ہے ۔ لندن میں مقیم آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلاسفی اور فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر یاسین الرحمن کا ایک مراسلہ کالم میں شامل کررہا ہوں ۔۔ملک پنوں خان میرے پاس آئے کہنے لگے سارے عمران خان کے خلاف گینگ اپ ہوگئے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کے اس گھر میں کھڑے ہوکر گواہی دیتا ہوں کہ عمران خان صحیح آدمی ہے۔ ایماندار ہے۔ ایسا ہی پچاس سال سے یہاں مقیم حاجی چوہدری قربان کا بھی کہنا تھا۔ جنہوں نے پاکستان کے حالات سے بیزار ہوکر گھر والوں کو برطانیہ میں ہی دفنانے کی تلقین کررکھی ہے۔ اکثر عمران خان کی اچھائیاں بیان کررہے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ میرے سمیت صحافیوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ تارکین وطن دوسرے ملکوں سے اپنے ملک کے لیڈروں تعمیر و ترقی اور اداروں کا جب موازنہ کرتے ہیںتو پریشان ہوتے ہیں۔ لوگ میڈیا سے بھی بیزارہیںجب صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی تو لوگ پاکستان کی طرح بیرون ملک بھی پاکستانی چینلز شوق سے دیکھتے تھے۔ ڈاکٹر یاسین الرحمن کا مراسلہ ملاحظہ کریں اگرچہ میں ان کی بعض باتوں سے متفق نہیں ہوں لیکن خلق خدا کی آوازہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ عمران خان کو اقتدار سے کیوں ہٹایا جائے ؟پاکستان گزشتہ کئی سال سے چند سنگین چیلنجوں سے گزر رہا ہے۔ بدقسمتی سے اپنے محل و وقوع اور جغرافیہ کی وجہ سے یہ توجہ کا مرکز رہا ہے۔ 1983 ء کے بعد سے بیرونی طاقتوں نے سیاسی مداخلت کے ذریعے پاکستان کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اس کی سٹریٹجک اہمیت کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے کی کوششیں کیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے محب وطن قیادت کا فقدان ہے۔ ملک میں سیاسی اشرافیہ کا قبضہ تھا۔ عمران خان کو خود کو اور اپنی پارٹی کو قائم کرنے میں تقریباً 22 سال لگے۔ 2013 میں ان کی پارٹی عروج پر تھی کہ وہ انتخابات جیتنے کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن بھارت امریکہ اور دوسروں کی مداخلت اور فنڈنگ نے انہیں اقتدار سے باہر رکھا۔ 2013ء سے لے کر اب تک پاکستانی میڈیا اور اس کے اینکرز نے عمران خان اور پاکستان کو ناکام کرنے کے لیے سب کچھ کیا۔ شریف خاندان مغربی طاقتوں کی جانب سے پاکستان میں بار بار اقتدار میں کیوں آتا ہے؟ پاکستانی میڈیا اور سیاسی اشرافیہ ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ آخر کار 2018 ء میں عمران خان اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اقلیتی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ تین سال سے ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جو ان کی حکومت کے لئے جدوجہد یا چیلنج ثابت نہ ہوا ہو۔ عمران خان پاکستان کے لئے جو کچھ کر رہے ہیں کسی اور سویلین لیڈر نے نہیں کیا۔ نہ ہی کسی میں کرنے کی صلاحیت ہے۔ عمران کوغلط اعداد و شمار پر مبنی معیشت کے ماڈل کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو سابقہ حکومتوں نے اپنے سیاسی فائدے اور کرپشن کے لئے استعمالکئے۔ انہوں نے اعلیٰ سطح پر حکومت کے حقیقی کردار کو متعارف کرایا ہے۔ سرکاری محکموں میں میرٹ اور کارکردگی کے معیار مرتب کئے ہیں۔ اگرچہ اس کا سب سے بڑا چیلنج گورننس رہا ہے۔ چونکہ پبلک سیکٹر کے زیادہ تر ملازمین کو پچھلی حکومتوں نے سیاسی طور پر تعینات کیا ہوا ہے ۔ مہنگائی تاجروں اور صنعت کاروں کے لالچ کی وجہ سے ہے۔ ان کی حکومت کو ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی مہنگائی سے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ اب تو پوری دنیا میں مہنگائی ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی ہیں۔ اس کا مقصد حکومت کو بدنام کرنا اور ناکام بنانا ہے۔ گورننس بہتر بنانے کے ساتھ حکومت کے ہر شعبے میں پاکستان کی بہتری کے لئے انہوں نے ان تمام منصوبوں اور فیصلوں کو ترجیح دی جس کی پاکستانی عوام کی خوشحالی کے لیے بہت زیادہ ضرورت ہے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کا موجودہ چیلنج پاکستان کو ترقی اور خوشحالی سے روکنے کی حکمت عملی ہے۔ امریکی اور یورپین ممالک کی عام عوام عمران خان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ہمارے مقتدر اداروں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے مغربی فنڈڈ دوست پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ۔ ان کا پاکستان کو معاشی اور اخلاقی طور پر تباہ کرنے کا سیاسی ایجنڈا ہے۔ وہ خطے میں بھارتی بالادستی چاہتے ہیں اور وہ پاکستانی فوج کو پنجاب پولیس بنانا چاہتے ہیں۔ سابقہ سیاسی اشرافیہ نے پاکستانی قوم کو اخلاقی اور سماجی طور پر کرپٹ کر دیا ہے۔مثال کے طور پر جب ppp حکومت نے plmn کی حمایت سے 18ویں ترمیم کی تو انہوں نے وفاق کے ساتھ بنیادی روابط کو ختم کرنے کو یقینی بنایا۔ وفاق سے تعلیم لے کر صوبوں کو دے دی اس کے مقاصد کیا تھے ان کا مشن یہ تھا کہ فیڈریشن کو کمزور کیا جائے اور پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔ پی ٹی آئی کے بینرز تلے پاکستان فیڈریشن مضبوط ہو رہی ہے ۔