وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جمشید مارکر سے کہا تھا کہ ترقی میں ہماری ناکامی کی واحد وجہ خوشامد ہے۔یہ بات ان کے ذہن میں محفوظ ہو گئی۔ جمشید مارکر اور ان کی اہلیہ وزیر اعظم ہاؤس میں ظہرانے کے لئے مدعو کئے گئے تھے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو میزبان کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد جب وزیر اعظم صاحب تشریف لائے تو نہایت ہی برانگیختہ تھے۔جمشید مارکرکے مطابق وزیر اعظم لیاقت علی خان عموماً صبر و تحمل کا دامن تھامے رکھتے تھے لیکن اس روز ان کے غصے کا کچھ اور ہی عالم تھا۔وہ کہہ رہے تھے کہ آخرمتروکہ املاک کے محکمے وا لوں کی جرأت کیسی ہوئی کہ وہ مجھے ان جائیدادوں کے بدلے زمینوں کی پیش کش کریں جو میں ہندوستان میں چھوڑ آیا ہوں۔وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جمشید مارکر کو بتایا تھا کہ انہوں نے وہ فولڈر ان لوگوں کے منہ پہ واپس پھینک دیا تھا اور انھیں صاف الفاظ میں کہہ دیا تھاکہ جب تک کراچی میں کھلے آسما ن تلے پڑے ہر ایک مہاجر کو رہنے کے لئے چھت میسر نہ ہو جائے اس موضوع پہ ان سے کوئی بات نہ کی جائے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ کرپشن کی دو سَری عفریت نے کس طرح اس نوزائیدہ مملکت میں اپنے پنجے گاڑے۔ یہ قارئین کا حق ہے کہ انھیں متروکہ وقف املاک نامی اُم الخبائث قسم کے محکمے کے بارے میں تمام تر معلومات فراہم کی جائیں۔ اس محکمے کے قبضے میں وہ قیمتی جائیدادیں تھیں جو پاکستان سے ہندوستان منتقل ہونے والے ہندو پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ہمیں ایسی کئی کہانیاں سنائی گئی ہیں کہ کس طرح سیاستدان اور ان کے عزیز اقرباء ان جائیدادوں کے ہتھیانے کے لئے باہم دست و گریباں رہتے تھے۔ تقسیم کے وقت خون کی ہولی کھیلی گئی تھی ۔ لاکھوں لوگ اپنے جانیں گنوا بیٹھے تھے۔ اس قتل عام کے دوران مالدار ہندو اپنے عالی شان مکانات، زرخیز زمینیں، اچھے بھلے چلتے کاروبار، بینک کھاتے اور زیورات و جواہرات جیسی منقولہ جائیدادیں پیچھے چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان سے آئے مسلمان مہاجرین کا یہ جائز حق تھا کہ انھیں متروکہ وقف املاک میں سے ان کا حصہ دیا جائے لیکن کئی ایک مہاجرین نے بھارت میں چھوڑی گئی جائیدادوں کے بارے میں بڑی رنگین قسم کی داستانیں گھڑ لی تھیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ ایسی جائیدادوں کی نشاندہی، جائزہ،قدر کا تقرر اور پھر ان کے اجراء و حوالگی کی ذمہ داری متروکہ وقف املاک کے مقررہ افسر کے پاس ایک مقدس امانت تھی۔حکومتِ پاکستان کو ایک روڈ میپ دیا گیا تھا جس کی رو سے اس امر کی مناعی مقصود تھی کہ بارسوخ پاکستانی ان متروکہ جائیدادوں پر ناجائز طور سے دعویٰ نہ کر سکیں۔ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے قواعد کی پاسداری کی تھی لیکن وفاقی حکومت نے انھیں یکسر نظر انداز کئے رکھا اور نتیجتاً سیاست کے گندے کھیل کے ساتھ ناجائز الاٹمنٹس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ہم نے خودلاہور ریس کورس کے اس پار گور اسٹیٹ میں واقع وہ بڑے بڑے عالی شان مکانات دیکھے ہیں جن کی ملکیت پہ سرکاری افسران نے دعویٰ کر دیا تھا اور وہ بھی ان جائیدادوں کے بدلے جو بقول ان کے وہ ہندوستان میں چھوڑ آئے تھے۔وزیر اعظم لیاقت علی خان نے لاہور کے ٹائون ہال میں خود اس بات پہ افسوس کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ متروکہ وقف املاک کا محکمہ قومی اتحاد کو نہایت نقصان پہنچا رہا ہے۔بظاہر شریف اور بھلے لگنے والے لوگوں نے جائیدادیں ہتھیانے کے لئے جھوٹے دعوے کئے اور ان کے ضمیر نے انھیں کوئی کچوکے نہیں لگائے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کہتے تھے کہ کاش اس ملک میں متروکہ وقف املاک کا محکمہ وجود ہی نہ رکھتا۔ جمشید مارکر کہتے ہیں کہ لیاقت علی خان ایک ایماندار شخص تھے۔ اپنی وفات کے وقت ان کی ملکیت میں کوئی ایک ذاتی گھر موجود نہیں تھا اور ان کے بینک کھاتے میں صرف چار ہزار روپے تھے۔ ان کے مقابلے میں ہمارے آج کے لیڈروں کو دیکھیں ۔ یہ لوگ کرپٹ ہیں اور ان کے ارد گرد خوشامدیوں کا جمگٹھا ہوتا ہے۔ ہمارا اقداری و اخلاقیاتی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنے کی جرأت شاذ ہی کسی کو ہوتی ہے۔جمشید مارکرنے 2010ء میں ہمارے ساتھ انٹرویو میں کئی ایک صداقتوں سے پردہ اٹھانا چاہا تھا۔ وہ ہمارے ساتھ کئی ایک ایسی باتیں شیئر کیں جو انہوں نے اس سے قبل کسی کو نہیں بتائی تھیں۔یہ انٹرویو ہم نے ان سے ان کے باتھ آئی لینڈ والے مکان میں لیا تھا۔انہوں نے ہمیں بتایا کہ وزیر اعظم سہروردی کے زمانے میں مذاقاً یہ کہا جاتا تھا کہ ان کے اردگرد کی خواتین دو اقسام کی ہیں ، ایکPPMٰٰؑ یعنی Pinched by the Prime MinisterاورUNPPM یعنی Un Pinched by the Prime Minster۔ مطلب یہ کہ وہ خواتین جن کو وزیر اعظم نے چٹکی کاٹی تھی اور وہ جو اس اعزاز سے محروم رہی تھیں۔تاہم سہروردی صاحب کی دیانت میں کسی کو کوئی شک نہیں تھا۔عورت ان کی واحد کمزوری تھی۔زلفی بھٹو اکثر یہ کہتے تھے کہ سہروردی صاحب کو عورتوںکے ساتھ بد فعلی کے الزام میں ہی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔بھٹو کے ساتھ جمشید مارکر کی بڑی دوستی تھی۔دونوں ہی کرکٹ کے بڑے شائق تھے۔جمشید مارکر نے بتایا کہ بھٹو صاحب جب وزیر اعظم بنے تو انھوں نے انھیں زلفی کہنا چھوڑ دیا۔ایوب دور میں جب وہ زیر عتاب آئے تو اس وقت بھی ان کی دوستی پہ کوئی فرق نہیں پڑا۔جمشید مارکر کہتے ہیں کہ بیرون ملک اپنی تعیناتی کے زمانے میں انھوں نے بھٹو صاحب کو سفارتی بیگ میں ایک خط بھی لکھا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے کسی کو پہلے نہیں بتایا لیکن جب بھٹو صاحب نے پی پی پی کی بنیاد رکھی تو جمشید مارکر نے انھیں دو لاکھ روپے بھی دئیے تھے۔ایک سرکاری ملازم کی حیثیت میں اس حرکت پہ وہ گرفتار بھی ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے پروا نہیں کی۔جمشید مارکر کے مطابق خرابی کا آغاز غلام محمد سے ہوا۔افسر شاہی کو تقویت حاصل ہوئی اور مشتاق گرمانی جیسے پنجابی سیاستدانوںکے ساتھ گٹھ جوڑ بنا کر اس نے نظم و نسق ریاست کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ جمشید مارکر نے اپنے ایک دوست کے حوالے سے بتایا کہ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم بھیڑوں کی قوم ہے جس کی قیادت بھیڑئیے کر رہے ہیں۔لیاقت علی خان کے بعد اس ملک پہ کبھی بھی کسی حقیقی طور پر منتخب ہوئے حکمران کی حکمرانی نہیں رہی۔اس ملک پہ حکمرانی کرنے والے یہاں کے عوام کے حقیقی نمائندگان کبھی نہیں رہے۔بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کی دوسری میعاد میں جمشید مارکر مستعفی ہونا چاہتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ محترمہ جب اپنے سرکاری دورے پہ واشنگٹن آئی تھیں تو وہاںملاقاتوں میں جہاں پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلقہ امور پہ بات چیت ہوتی تھی وہ اپنے لابسٹ مارک سیگل اور دوست پیٹر گالبریتھ کو بھی ساتھ رکھتی تھیں۔جمشید مارکر صاحب کو یہ بات بالکل بھی پسند نہیں تھی کیونکہ ان دونوں کا وہاں کوئی کام ہی نہیں تھا، مگر بے نظیر بھٹو کی مرضی کے خلاف کس کی چل سکتی تھی؟ اس وقت کے امریکی صدر بش نے محترمہ، ان کے شوہر اور بیٹے کا بھر پور خیر مقدم کیا تھا اور محترمہ اس پہ پھولے نہیں سما رہی تھیں۔جمشید مارکر صاحب نے ہمیں مزید بھی کئی باتیں بتائی تھیں ۔ ہمیں امید ہے کہ ان کی نئی کتاب Cover Point: Impressions of Leadership in Pakistan. میں انھوں نے ان سب باتوں کو ضرور شامل کیاہوگا۔ تاریخ ویسے بھی حکمرانوں اور ان کے طرز حکمرانی کی کہانی ہوتی ہے اور پاکستان کے بارے میں یہ کہانی جمشید مارکر صاحب سے بہتر اور کون رقم کر سکتا ہے؟ انہوں نے دو صدور، سات وزرائے اعظم اورتین فوجی سربراہان کا زمانہ دیکھا اور کئی ایک غیر ملکی وزرائے خارجہ سے ان کا رابطہ رہا۔ جمشید مارکر نے ہمیں بتایا کہ جس رات بھٹو کو پھانسی دی گئی ، اس رات معین قریشی ساری رات ضیاء الحق کے ساتھ رہے تھے۔ معین قریشی بتاتے ہیں کہ وہ صبح دو بجے تک جنرل ضیاء کے ساتھ تھے۔ جنرل ضیاء بڑے اطمینان کے ساتھ مختلف موضوعات پہ بات کرتے رہے تھے ، اور اس سے ا گلے دن اخبارات میں بھٹو کی پھانسی کی خبر چھپی تھی۔