عمران خان نے فراخدلی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک دفعہ تو ہمیں خوش کردیا ہے۔ زبانی کلامی سہی یہی بہت ہے کہ انہوں نے کہہ دیا کہ اگر اتنے قرضے نہ ہوتے تو وہ مفت حج کرواتے۔ گویا وہ ناممکن کو ممکن بنا کردکھاتے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو پھر کونسا ان کو اپوزیشن نے جینے دینا تھا۔ پھر وہ کہتے کہ خان صاحب کو کس نے حق دیا ہے کہ وہ عوام کو مفت حج کروائیں۔ یہ قومی پیسہ اس طرح نہیں خرچ کیا جاسکتا۔ وہ یہ بھی کہتے کہ خان صاحب اپنی جیب سے تو گھر آئے مہمان کو ایک کپ چائے تک نہیں پلاتے اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں مگر قومی دولت کیسے حج کے نام پر لٹا کر اپنی تشہیر کر رہے ہیں۔ چلیے چھوڑیے میں بھی کیا ہوں کہ مستقبل کا خیالی پس منظر لکھنے بیٹھ گیا۔ خان صاحب نے کہا ہے کہ چوبیس ہزار ارب قرضہ لیا گیا اور یہ سارا پیسہ جیبوں میں گیا۔ جب این آر او ون اور پھر این آر او ٹو آیا تو بددیانت اور بے ایمان لوگوں کے دلوں سے کرپشن پر پکڑے جانے کا خوف ہی ختم ہوگیا۔ واقعتاً پلی بارگیننگ کیا تھا کہ کھائو پیو اور ہمارا حصہ دیتے جائو۔ آپ کے ذہن میں کئی نام آ جائیں گے جنہوں نے اربوں کھائے اور کروڑوں دے کر فارغ ہو گئے۔ رشوت لیتا پکڑا گیا اور رشوت دے کر چھوٹ گیا والا معاملہ۔ یہ بھی کہا گیا کہ حج پر سبسڈی کی بات کرنے والوں نے خزانے میں چھوڑا کیا ہے۔ خان صاحب نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ جب بھی کوئی حکومت جاتی ہے وہ خالی خزانہ اور مولانا فضل الرحمن چھوڑ جاتی ہے۔ ان کا مقصد تھا کہ آنے والے کو وراثت میں یہ دو چیزیں ملتی ہیں مگر خان صاحب کو تو صرف خزانہ ہی ملا ہے جو اب تک خالی ہے ہم سوچنے میں آزاد ہیں کہ پچھلے چھ ماہ میں کیا خزانہ اسی طرح خالی پڑا ہوا ہے۔ آخر اس میں کچھ نہ کچھ تو آنا چاہیے کہ ٹیکس بڑھ گئے ہیں، پٹرول بھی مہنگا ہوا اور گیس بھی۔ جہاں تک گیس چوری کا معاملہ ہے وہ نیا نہیں۔ مہنگائی کے بڑھنے کا اندازہ آپ ایک دو چیزوں ہی سے لگا سکتے ہیں کہ چائے کی پتی کا ڈبہ ایک سو بیس سے ایک سو نوے تک پہنچ گیا۔ کوئی بھی فیملی پیسٹ اب ڈیڑھ دو سو سے کم نہیں۔ نان بارہ روپے، اتنی مہنگائی کے بعد بھی آئی ایم ایف کے پاس جا بیٹھے۔ لیجئے ایک شعر فی البدیہہ ہوگیا: جس خزانے پہ سانپ ہوں بیٹھے اس خزانے پہ کون آئے گا اس شعر کا اشارہ ہر اس حکمران کی طرف ہے جو اس کے دائرہ اثر میں آتا ہے۔ ویسے روایت کے مطابق سانپ تو صرف خزانے پر پہرا دینے میں ہی بدنام ہوگیا۔ لگتا ہے کہ یہ باقاعدہ ایک سازش ہے کہ جس کے تحت سانپ کو بدنام کیا گیا ہے کہ اس نے حضرت انسان سے کسی خزانے کو بچایا ہوگا۔ آستین کا سانپ بھی ہم نے خود بنایا۔ سانپ اور سپولوں کے استعارے اگر فطری ہیں تو انسان بھی فطرتاً کچھ کم نہیں: انسان اپنے آپ کو پہچانتا نہیں ایک سانپ بولتا ہے سپیرے کی بین میں آپ ہماری اس انسان شناسی یا سانپ شناسی پر ضرور داد دیں گے۔ یہ کیسی بات ہے کہ خالی خزانہ بھی خزانہ ہی کہلاتا ہے اور اس کا وزیر بھی ہوتا ہے۔ چاہے وہ خزانہ اٹھا کر گھر بھی لے جائے۔ معذرت چاہتا ہوں کہ کالم کسی اور طرف نکل گیا۔ بات ہورہی تھی خالی خزانے کی اور مفت حج کی۔ خان صاحب سے ہماری گزارش اتنی ہے کہ وہ مفت حج نہ کروائیں اور نہ ہی سبسڈی دیں مگر وہ حج کو اتنا مہنگا بھی نہ کریں۔ آپ سعودیہ سے مفت تیل لے سکتے ہیں، اربوں امداد لے سکتے ہیں کہ حج کے ضمن میں بھی کچھ نہ کچھ چھوٹ لے سکتے ہیں۔ ایک پرائیویٹ کمپنی نے تو اعلان کیا ہے کہ وہ حج کو ساڑھے تین لاکھ خرچ تک لا سکتی ہے۔ آپ اس کمپنی سے ہی رجوع کرلیں۔ ویسے حج ہر دور میں مشکل ہورہا ہے اور تو اور غالب کو بھی بادشاہ سے درخواست کرنا پڑی کہ اگر وہ غالب کو حج پر ساتھ لے چلیں تو ’’حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی۔‘‘ ہمارے ہاں بھی باقاعدہ سرکاری حج ہوا کرتے تھے اور عمرے بھی۔ کم از کم عمران خان سے کوئی یہ توقع نہ رکھے کہ وہ اپنے مصاحبین کو اس طرح سے نوازے گا۔ ہمارے حکمران تو قرض لینے کے لیے بھی مفت بروں کی پوری جماعت لے کر جاتے تھے۔ قرض دینے والے حیران ہوتے تھے کہ یہ لوگ قرض دینے کے قابل نہیں کہ اتنے عیاش ہیں۔ یہ بات بھی عمران نے درست کہی کہ قرض لینے والوں نے جیبیں بھریں۔ بلکہ ان چور ڈاکوئوں کی جیبوں میں سوراخ ہوتے ہیں یہ بھرتی نہیں ہیں۔ ’’ممکن جو ہو تو رکھیں وہ اپنے کفن میں جیب۔‘‘ یہ اچھی خبر ہے کہ سعودیہ کے ولی عہد محمد بن سلطان کے دو روزہ دورے کے دوران دس ہزار مزید کوٹہ کی درخواست کی جائے گی۔ عمرہ کے لیے لگائے گئے دو ہزار ریال ٹیکس کے بارے میں چھوٹ کی درخواست دی جائے گی۔ موجودہ حج کے حوالے سے بھی تو بات ہو سکتی ہے۔ اسد عمر لوگ اپنی نیت ٹھیک کریں تو وزارت حج کے لیے بھی اچھا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کتنے ہی لوگ ہیں جو تین لاکھ تک جوڑ کر بیٹھے تھے کہ فریضہ حج ادا کریں، اب وہ مایوس ہو گئے۔ زیادہ بڑی خوش خبری یہ ہے کہ محمد سلمان کے آنے پر بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ پہلے یہ پندرہ ارب کی تھی۔ دیکھا جائے تو سرمایہ کاری امداد سے زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے کہ اس میں کھانے پینے کی گنجائش بھی کم ہوجاتی ہے۔ بیروزگاری کم ہو جاتی ہے۔ کچھ تنصیبات اثاثہ بن جاتی ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی یقین رکھنا چاہیے کہ خان کی ٹیم خوردبرد نہیں کرے گی کہ ان کے پاس اس کی گنجائش نہیں ہے۔ یہی ایک موقع ہے کہ ہم سنبھل جائیں اور اس سرمایہ کاری سے نئے دور کا آغاز کریں۔ یہ درست ہے کہ دفتروں میں ابھی تک پرانی نہج پر ہی کام چل رہا ہے۔ دفتروں میں افسران فائلیں دبا کر بیٹھے ہیں کہ کام رواں نہ رہ سکے۔ کچھ وقت لگے گا ایسے افسر جورکاوٹ بن رہے ہیں ضرور بھگتیں گے۔ جو بھی ہے، وہ جو الٹی سمت سے سورج چڑھنے جارہا تھا، ابھی نہیں چڑھے گا۔ وہی ’’مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ‘‘ محاورتاً درست ہے۔ ’’پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں، پھر وہی زندگی ہماری ہے۔‘‘ کیا کریں ہماری اقتصادی حالت ہمیں نئے رومانس کی اجازت نہیں دے رہی۔ غالب نے تو کہا تھا: ’’صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا۔‘‘ آخر میں دو شعر: میں جانتا ہوں کہ دنیا برا ہی کہتی ہے مگر جب اس نے کہا ہے تو میں برا ہوں ناں جہاں میں سعد یہ اچھا برا تو چلتا ہے کوئی جو اچھا بنا ہے تو میں برا ہوں ناں