گزشتہ تین چار ماہ کے دوران اسد عمر کرپشن کے خاتمے کے نام پر چھوٹے بڑے ہر کاروبار کی حوصلہ شکنی کرتے رہے نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ معیشت کا پیسہ تیزگام ہونے کے بجائے جام ہوگیا جس پر کاروباری حلقوں کی طرف ان پر شدید تنقید کی گئی۔ ’’اصلاحاتی پیکیج‘‘ سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ معیشت کا رکا ہوا پہیہ دوبارہ چل پڑے گا۔ اپنی معاشی تقریر کے دوران اسد عمر جابجا سیاسی طنز و مزاح کا تڑکا لگاتے رہے تاہم اپوزیشن کے احتجاجی نعروں سے وہ بے مزہ نہ ہوئے اور انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام تک اپنے آپ کو کمپوزڈ رکھا۔ دوران تقریر انہوں نے کہا ہمارا اثاثہ قوم کی دعائیں ہیں سرے محل نہیں اس طرح ایک موقع پر انہوں شہباز زرداری کے حالیہ اتحاد کو نشانہ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ زرداری کو لاڑکانہ اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے لیے شہبازشریف کا شکریہ۔ اس ’’اصلاحاتی پیکیج‘‘ میں جو مراعات دی گئی ہیں ان کے نتیجے میں خزانے کو جو خسارہ ہو گا وہ کہاں سے اور کیسے پورا ہوگا؟ اس کے بارے میں اسدعمر نے اپنی تقریر یا اخباری وضاحت میں روشنی نہیں ڈالی۔بس مسکراہٹوں سے کام لیا ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے دو ہی طریقے ہیں ایک مزید ٹیکس اور دوسرے ان معاشی مراعات کے نتیجے میں ہونے والی پیداواری وسعت۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو پہلے چھ ماہ کے دوران 175 ارب روپے کا ریونیو خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے جبکہ حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان نے جو بلند بانگ دعوے کئے تھے ان کے مطابق انہوں نے کہا تھا کہ چار ہزار ارب کے بجائے آٹھ ہزار ارب کا ٹیکس اکٹھا کر کے دکھائوں گا۔ ماہرین اقتصادیات ٹیکس وصولی کے ضمن میں فائلر اور نان فائلر کی اصطلاحات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک ادائیگیوں کے توازن کو درست کرنے کے لیے درآمدی و برآمدی پالیسیوں میں بنیادی اصلاحات لانے کی ضرورت تھی اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے محض چند ایک سطحی نوعیت کی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں بڑی گاڑیوں پر مزید ٹیکس عائد کردیا گیا ہے اور مہنگے موبائل فونز کو مزید مہنگا کردیا گیا ہے۔ آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ درآمدی اشیا کی لسٹ میں بے شمار فوڈ آئٹمز بھی موجود ہیں۔ خشک، ڈبہ پیک دودھ اور پنیر کے علاوہ سبزیاں اور پھل تک بیرون ملک سے درآمد کئے جا رہے ہیں۔ ہم کینو کی برآمد میں مشہور تھے اب کئی ملکوں سے مالٹے منگوا رہے ہیں۔ اسی طرح کاسمیٹک سمیت بے شمار لگژری اشیاء ہیں جن کے بغیر ہمارا گزارہ ہو سکتا ہے انہیں بھی بھاری مقدار میں درآمد کیا جاتا ہے اور یوں اپنا درآمدی بل بڑھایا جاتا ہے۔ یہی حال برآمدات کا ہے۔ اس سلسلے میں برآمدی صنعتوں کی وسیع القلبی کے ساتھ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ ہم بات بات پر چین اور جاپان کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی ترقی کا راز ان کی برآمدات ہیں۔ برآمدات میں جتنا اضافہ ہوگا اتنا ہی زرمبادلہ ملک کمائے گا اور زرمبادلہ کے ذخائر جتنے بڑھیں گے اتنا ہی ملک مضبوط ہوگا۔ اس منی بجٹ میں چند وقتی نوعیت کے اقدامات گرتی ہوئی معیشت کو سہارا اور سنبھالا دینے کے لیے کئے گئے ہیں مگر معیشت کے مستقل استحکام کے لیے جس وسیع تر اور عمیق تر وژن کی ضرورت ہے اس کی ہمیں اسد عمر کے اقتصادی پیکیج میں کہیں کوئی جھلک دکھائی نہیں دی۔ چین اور جاپان جیسے ممالک کی معاشی خوش حالی کاراز تعلیم، محنت اور مہارت میں ہے۔ ہماری کسی حکومت نے ان تین بنیادی صفات کے حصول پر کبھی توجہ نہیں دی۔ جہاں تک خارجہ میدان میں تحریک انصاف کی حکومت کی حسن کارکردگی کا تعلق ہے تو اس کی داد نہ دینا تھڑ دلی ہوگی۔ تحریک انصاف نے نہ صرف برادر اور دوست ممالک کے ساتھ پائی جانے والی سرد مہری کوگرم جوشی میں بدل دیا ہے بلکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین وغیرہ سے بروقت مالی امداد بھی حاصل کی ہے جس سے ہماری بگڑتی ہوئی معیشت ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہوگی۔ اگر یہ برادر اور دوست ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو یہ ہماری معیشت کے لیے بہت خوش آئند ہوگا۔ وزیر خزانہ کے دو اقدامات میرے نزدیک بطور خاص قابل تحسین ہیں۔ ایک سولر اور ونڈ ٹربائنز کے پراجیکٹس پر ہر طرح کے ٹیکس کی پانچ سالہ چھوٹ اور دوسرے بے گھر لوگوں کو اپنی چھت فراہم کرنے کے لیے پانچ ارب روپے کا قرض حسنہ پروگرام۔ اگر شمسی توانائی کے بارے میں ہمارے نوجوان سکالرز اور سائنسدان مزید تحقیق کریں اور اس میں ایسی تکنیک سامنے لے لائیں کہ جو سولر پلانٹ کی تنصیب اور استعمال ہونے والے سیلوں کے اخراجات کو حیران کن طور پر کم کردے تو پھر ہمارا انرجی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور ہم یہ تکنیک اور سولر انرجی پلانٹس کو ایکسپورٹ بھی کرسکیں گے۔ اسی طرح ونڈٹربائن کا معاملہ ہے کہ ونڈ کاریڈورز جگہ جگہ دریافت کئے جائیں اور وہاں ٹربائنز تنصیب کی جائیں۔ جہاں تک غریبوں کو اپنی چھت فراہم کے لیے مختص پانچ ارب کے قرض حسنہ کا تعلق ہے تو مجھے معلوم نہیں کہ حکومت اس کے لیے کیا انتظام کرے گی۔ تاہم اس کار خیر کے لیے اخوت تنظیم بہترین فورم ہوگا جس کے منتظم اعلیٰ ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کی ٹیم کی سو فیصد دیانت و امانت کے بارے میں ’’اجماع امت‘‘ ہے اور آج تک ایک انگلی ان کے خلاف نہیں اٹھی۔ یہ تنظیم اربوں روپے بلاسود قرضے دینے کے علاوہ کروڑوں کا فنڈ غریب اور لوئر متوسط کلاس کے لوگوں کو اپنا چھوٹا سا گھر تعمیر کرنے کے لیے دے چکی ہے۔ حکومت کو بعض بنیادی نوعیت کے فیصلے کرتے ہوئے سمگلنگ کو روکنا ہوگا۔ افغانستان کے لیے جو کنٹینرز کراچی پورٹ کے راستے آتے ہیں ان میں سے بغیر ڈیوٹی ادا کیا ہوا کا مال پاکستان میں واپس آ جاتا ہے یا وہاں پہنچنے سے پہلے ہی باڑہ مارکیٹوں میں چلا جاتا ہے۔ وہی مال پاکستانی تاجر بھاری ڈیوٹی ادا کرکے منگواتے ہیں۔ ان کی قیمتیں سمگلنگ والے مال سے زیادہ ہوتی ہیں لہٰذا تاجر بھی بھاری خسارہ اٹھاتے ہیں اور حکومت کو بھی کچھ نہیں ملتا۔ اسد عمر صاحب کے اس اصلاحاتی پیکیج میں غریبوں کے لیے کچھ نہیں۔ بجلی کی قیمت میں کمی کے بجائے 57 پیسے فی یونٹ کا اضافہ ہو گیا ہے، گیس بھی بہت مہنگی ہے۔ اسی طرح باقی اشیا کی قیمتیں بھی ساتویں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور غریبوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ بہرحال ماننا پڑے گا کہ اسد عمر نے اچھی چال چلی اور ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکسوں میں چھوٹ دے دی چاہے یہ چھوٹ صرف تاجر طبقے کے لیے ہی ہے۔ آگے دیکھنا یہ ہوگا کہ ان اچھے اقدامات پر عملدرآمد کیسے ہوتا ہے اور گوڈ گورننس کی عدم موجودگی میں دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک