ارادہ فواد چوہدری کے پارلیمنٹ میں درد دل کے ساتھ خطاب پر لکھنے کا تھا کہ اس قسم کا خطاب1997 ء میں محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی کیا تھا جب میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ کشتوں کے پشتے لگائے چلے جا رہے تھے لیکن صدر ٹرمپ کسی عجلت میں ہیں ۔ گزشتہ کالم میں جن خطرات کا اظہار کیا تھا وہ وقت سے پہلے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔اس لئے اسی عنوان کے تحت صورتحال کا مزید جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ جمعہ کے روز شائع ہونے والے کالم میں عرض کیا تھا کہ ،’’توقع کی جارہی ہے کہ نئی دہائی دنیا میں امن کی دہائی ثابت ہو گی لیکن ا مریکی عزائم سے لگتا ہے کہ اگلے چند برسوںمیں ایک بار پھر اس خطے میںخون اوربارود کا بازار گرم ہونے کو ہے۔ ابھی وہ کچھ دیر مشرق وسطیٰ میں اپنا کھیل کھیلے گا اور شاید ایران کے ساتھ بھی ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ ہو لیکن نئی دہائی کے وسط سے وہ ایک بار پھر چین کا رخ کرے گا‘‘۔ ایران کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو امریکی ڈرون نے جمعہ کے روز ساتھیوںسمیت بغداد ائیر پورٹ پر نشانہ بنایا۔ جس کے بعد خطے کی صورتحال یکدم کشیدہ ہو گئی ہے اور اسکے نتائج یقیناً خطرناک ہونگے کیونکہ ایران نے اسکا بدلہ اسی انداز میں لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ کیوں ہوا اسکی فوری وجوہات پر بھی بات ہو گی ۔لیکن پہلے کچھ تاریخی حوالہ ضروری ہے۔ امریکہ کا طریقہ واردات ڈیڑھ صدی سے ایک ہی ہے۔پہلی عالمی جنگ کا حصہ بننا ہو تو بہانہ ہوتا ہے کہ جرمن کی U-Boats نے انکے تجارتی جہازوں کو نشانہ بنایا ہے، مزید یہ کہ برطانیہ نے بدنام زمانہ’’ Zimmerman telegram‘‘کا بہانہ فراہم کیا جسکے مطابق جرمن ،میکسیکو کے ساتھ اتحاد بنانے جا رہے تھے جو کہ امریکہ کا پڑوسی ہے۔جب دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کودا تو پرل ہاربر پر جاپانی جنگی طیاروں کا خود کش حملہ اسکی بنیاد بنا۔ اب تین باتیں ذہن نشین رکھیے گا، پہلی یہ کہ جرمن U-Boats کا امریکی تجارتی جہازوں کو نشانہ بنانا، برطانیہ کا ایک ٹیلیگرام کا انکشاف کرنا، اور جنگی جہازوں کا امریکی زمین پر خود کش حملہ۔اسکے بعد جن جنگوں میں امریکہ گھسا ہے اسکا جواز اسی طرح گھڑا گیا جس طرح ان دو عالمی جنگوں کا حصہ بننے کے لئے کیا گیا تھا۔ ویتنام کی جنگ کا بہانہGulf of Tonkin incident بنا۔ جس میں امریکی دعویٰ تھا کہ اسکا جنگی بحری جہاز USS Maddoxبین الاقوامی پانیوں میں تھا کہ شمالی ویتنام کی آبدوز نے اسے نشانہ بنایا۔ اس امریکی دعوے کو امریکہ میں بھی درست نہیںمانا جاتا۔ جرمن آبدوز کے بعد اب ویتنامی آبدوز پر الزام عائد ہوا اور امریکہ شمالی اور جنوبی ویتنام کی جنگ کا حصہ بنا۔ اگرچہ امریکہ جنوبی ویتنام کی قیادت کو یقین دلا رہا تھا کہ وہ انکی مدد کے لئے آئے ہیں لیکن بعد میں پنٹا گون پیپرز سے پتہ چلا کہ اس وقت کے سیکرٹری دفاع رابرٹ میکنا مارا میں صدر کو ارسال کئے گئے ایک میمو میں لکھا تھا کہ اگر ہمیں اس جنگ کا حصہ بننا ہے تو اسکا واضح مقصد چین کا خطے میں اثر و رسوخ روکنا ہو گا۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ جب بھی کوئی پر تشدد ایکٹ کر رہا ہوتا ہے یا کسی جنگ میں گھس رہا ہوتا ہے تو بظاہر بیان کیا گیا مقصد کچھ اور ہوتا ہے لیکن اصل ٹارگٹ کچھ مختلف۔اسکے لئے یقیناً کئی سال پہلے سے سوچ وبچار کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ جنگ کاحصہ بننے کے بعد آپ اپنے اہداف کے بارے میں فیصلہ کریں۔ اب ذرا امریکہ کی بہانے بازیوں کا جائزہ نائن الیون کے سانحہ کی روشنی میں لیتے ہیں۔اس سانحہ میں بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور اسکے نتیجے میں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف شروع کی گئی جنگ نے پوری دنیا کو جنگ کے ساتھ ساتھ خوف کی لپیٹ میں لے لیا۔ اس واقعہ میں بھی پرل ہاربر کی مماثلت نظر آتی ہے کہ جہازوں کو استعمال کر کے ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر خود کش حملہ کیا گیا۔جس کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کا جواز بنایا گیا کہ اسامہ بن لادن اس منصوبے کا ماسٹر مائنڈ تھا جو کہ وہاں پناہ لئے ہوئے ہے۔ جب امریکہ نے عراق پر حملے کا فیصلہ کیا تو ایک بار پھر برطانوی کاسہء لیس کام آئے اور ایک جعلی میمو تیار کرایا گیا کہ عراق کے پاس ایٹمی ہتھیارہیں۔اس تاریخی طریقہ واردات کو دیکھنے کے بعد اب ایرانی جنرل پر حملے کی فوری وجوہات کا جائزہ لینے میں آسانی ہوگی۔2020ء امریکی انتخابات کا سال ہے جس میں صدر ٹرمپ دو چورن بیچ رہے ہیں۔ایک طرف وہ دنیا میں جاری جنگوں میں امریکی فوجوں کے حصہ بننے کی مخالفت کر رہے ہیں اور پہلے الیکشن کی طرح اس بار بھی انکا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے سپاہیوں کو وطن واپس لائیں گے۔ جس کے لئے وہ افغانستان میں بظاہر ایک امن عمل میں مشغول ہیں۔ دوسرا خطے میں امریکی مفادات کے لئے خطرہ ایران کو سبق سکھانے کی بات کی جاتی ہے۔اگر تھوڑا سا ماضی قریب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک اور مماثلت امریکی صدور کے فعل میں ملتی ہے۔ جب صدر کلنٹن کودسمبر 1998میں ایوان نمائندگان میںمونیکا لیونسکی کیس میںImpeachment کا سامنا تھا تو انہوں نے بھی اس کانگرس میں ووٹنگ سے پہلے آپریشن ڈیزرٹ سٹارم شروع کر دیا تھا ۔یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ صدر ٹرمپ کو Impeachment کا سامنا ہے اور انہوں نے بھی عراق میں کارروائی کر کے جنگی ماحول پیدا کر دیا ہے۔فوری وجہ Impeachment سے توجہ ہٹانا ہو سکتا ہے لیکن 2020 ء کے انتخابات میں کامیابی اصل ٹارگٹ ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ 2012ء کے انتخابات میں صدر ٹرمپ نے امریکی صدارت کے دوسری ٹرم کے لئے امیدوار بارک اوباما پر پھبتی کسی تھی کہ ’’اوباما پر نظر رکھیں یہ انتخابات میں جیتنے کے لئے ایران پر حملے کا ڈھونگ رچا سکتے ہیں‘‘۔ حرف آخر یہ کہ ایک تو امریکی تاریخ جلدی جلدی اپنے آپ کو دہراتی ہے، دوسرا امریکہ نے آج تک اپنی کسی غلطی سے کچھ نہیں سیکھا، کیونکہ انکے ہاں غلطی تسلیم کرنے کا رواج ہی نہیں ہے۔ ٭٭٭