رات سے موسم مینہ میں بھیگا ہوا ہے۔ صبح بھی ہلکی ہلکی بارش ہوتی رہی۔ سرمئی بادلوں کے دبیز ٹکڑے‘سورج کی کرنوں کو روکے کھڑے رہے۔ایسے میں بادلوں کی چھائوں آس پاس کے منظر کو اور بھی حسین بنا رہی تھی۔ صبح کی چائے پیتے ہوئے‘ اخبار پڑھنا پسندیدہ ترین کام ہے۔ کالم کے لئے حتمی موضوع کا انتخاب بھی صبح کے اخبارات پڑھ کر ہی ہوتا ہے ۔بھلے‘ سارا دن نیوز چینلز کے چیختے، دھاڑتے نیوز اینکرز خبروں کے ہتھوڑے سر پر مارتے رہیں، ہم تو حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ بار بار کی دھرائی جانے والی خبروں کے ان ہتھوڑوں سے خود کو محفوظ رکھیں اور کسی کتاب کے پرسکون صفحات میں پناہ لیں یا پھر کینوس پر رنگوں کی زبان میں‘ اندر کے حبس کو اظہار کا راستہ دیں۔ خیر تو بات اخبار کی ہو رہی تھی اتنے بارشیلے موسم میں چائے پیتے ہوئے نظر ایک افسوسناک خبر پر پڑی۔ طوفانی بارشوں سے چھتیں گر گئیں۔ ایک ہی خاندان کے 8افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔کہیں آسمانی بجلی گرنے سے تباہی ہوئی۔ اب یہ خبر پڑھتے ہی دل میں بارش کے حسین موسم سے جو نظم ابھی مصرعہ مصرعہ نسبت کے مرحلے میں تھی ‘اس پر اداسی چھا گئی بارش کے حسین موسم کو کالم کا موضوع بنانے کا جو خیال تھا۔ وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ شاید یہی فرق اخبار میں لکھنے والے ایک کالم نگار کا ایک خالص فکشن رائٹر کا بطور کالم نگار میں معاشرے اچھے برے حالات سے جڑی ہوئی ہیں۔لوگوں کے دکھ درد سے مجھے واسطہ ہے۔ غربت اور عدم مساوات کے بوجھ تلے ‘سسکتے ہوئے‘ لوگوں کے آنکھوں کے آنسو ہی صحافی کے قلم کی روشنائی ہیں۔اب ایک اور خبر پر نظر پڑی کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی دلہن کیری سائمنڈ نے اپنی شادی پر کرایے کا عروسی لباس پہنا۔ سفید رنگ کے عروسی فراک کی اصل قیمت تقریباً 3ہزار پائونڈ تھی جبکہ کفایت شعار دلہن نے صرف 45پائونڈ ادا کر کے ‘یہ قیمتی عروسی لباس استعمال کیا۔ یوں برطانیہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگوں خصوصاً پاکستانیوں کے لئے کفایت شعاری کی ایک اچھی مثال قائم کی۔ زندگی گزارنے کی اچھی روایات اوپر سے شروع ہوں تو نیچے بھی سب اس سے متاثر ہوتے ہیں۔سادگی اور کفایت شعاری کو اجاگر کرتے ہوئے اطوار اگر وہ طبقہ اپنائے جس کے بارے میں عمومی خیال یہ ہے کہ وہ افورڈ کر سکتے ہیں تو پھر اسے دوسرے لوگ بھی اپناتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں ایک آدھ مثال قائم کرنے سے تبدیلی کا یہ عمل شروع نہیں ہو سکتا‘ جبکہ برطانوی معاشرے میں لوگ اپنے اپنے ڈھنگ سے زندگی گزارتے ہیں۔وہاں شادیوں پر دولت کی نمائش کرنے‘شادیوں کی چمچاتی تقریبات میں ایک دوسرے کو بچھاڑنے کا کوئی رواج نہیں۔ وہ تو ایک ویڈنگ کیک پر شادی کے بندھن میں بندھنے والے لوگ ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایک عام مڈل کلاس پاکستانی جس طرح شاہانہ انداز میں اپنے بچوں کی شادیاں رچاتا ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ کسی انگریز سیاح نے پاکستانی شادی دیکھ کر کہا تھا کہ عام پاکستانی شادی بھی برطانیہ کی رائل ویڈنگ سے زیادہ بڑی ہے۔ دیکھا جائے تو ہماری تہذیبی روایات بھی ایسی ہیں کہ خاندان جڑے ہوئے ہیں۔ رشتہ داریاں نبھانا پڑتی ہیں ایسے میں شادیوں میں رشتہ داروں عزیزوں اور دوستوں کو مدعو کیا جاتا ہے دور سے آنے والے رشتے داروں کو ٹھہرانے کا بندوبست الگ کیا جاتا ہے۔ پھر قیام و طعام کے خرچے الگ۔ شادی کی تقریب بھی کم از کم تین سے چار فنکشنوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اپنی اپنی بساط کے مطابق۔ لوگ اپنی جمع پونجی شادیوں کی نذر کرتے ہیں۔قرض اٹھا کر بھی اپنی ناک بچاتے ہیں۔ لڑکی والوں کو جہیز کے نام پر لاکھوں کا تاوان بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ الگ سلگتا ہوا موضوع ہے۔ شادی کے ان تمام اخراجات میں سب سے فضول آئٹم جس پر پیسے ضائع کئے جاتے ہیں وہ دلہن کی شادی کا جوڑا ہے۔جو چند گھنٹے پہننے کے بعد ناکارہ چیز کی طرح کسی صندوق یا الماری میں پڑا رہتا ہے۔ مڈل کلاس والدین ہے تو ساٹھ ستر ہزار روپے چند گھنٹوں کے جوڑے پر ضائع کر دینا کسی بوجھ سے کم نہیں ،دلہن کے ایک جوڑے کی قیمت اب لاکھوں میں ہے ۔میں حیران ہوں کہ ہم ابھی تک اپنے معاشرے میں اس طرح کا مثبت رجحان کیوں نہیں دے سکے کہ لوگ چند گھنٹوں کے لئے پہنے جانے والے عروسی جوڑے پر اپنی جمع پونجی ضائع نہ کریں۔یہاں بھی عروسی ملبوسات کرائے پر دستیاب ہونے چاہیئں۔شادی بیاہ پر پہننے والے کپڑے اب کرائے پر مل رہے ہیں ،یہ مثبت اور حقیقت پسندانہ رجحان آہستہ آہستہ یہاں پروان چڑھ رہا ہے مگر دلہن کے عروسی جوڑے کے لئے ہمارے ہاں والدین اور خود لڑکیاں بہت جذباتی ہوتی ہیں ہم پاکستانی ویسے بھی کچھ جذباتی قوم ہیں، بیٹی کو رخصت کرنا جذبات سے لبریز ایک مرحلہ ہوتا ہے والدین کیسے سوچیں کہ بیٹی کو کرایے کا عروسی جوڑا پہنا کر رخصت کریں۔اپنے لوگوں کی نفسیات سمجھتی ہوں اس لئے لکھ رہی ہوں کہ کرایے کے جوڑا اگر نامنظور ہے تو مناسب قیمت کا عروسی جوڑا پہن لیں مگر ہزاروں لاکھوں چند گھنٹوں کے فوٹو شوٹ پر ضائع نہ کریں اس ایک سال میں وبا کی وجہ سے شادیوں کی مختصر تقریبات کرنے کا مثبت رجحان معاشرے میں پیدا ہوا ہے۔شوبز کی کئی مشہور شخصیات نے سادگی سے شادیاں کرنے کی اچھی مثالیں بھی قائم کیں لوگ بھی اسے سرا ہ رہے ہیں۔ والدین پر بوجھ بنتی ہوئی مہنگی شادیوں کے رجحان کو بدلنا ضروری ہے۔ یہ رسم و رواج حکومتیں نہیں بدلیں گی۔نہ کوئی باہر سے آ کر بدلے گا۔ ہم سب کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا اور نہ صرف شادی بیاہ بلکہ زندگی کے باقی معاملات میں بھی نمود و نمائش کو نکال کر سادگی اور سہولت کو فروغ دینا ہو گا۔