برا نہ مانئے‘ میرا خیال ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ کی اقوام متحدہ میں تقریر عالمی برادری کے لیے کم اور پاکستانی عوام کے لیے زیادہ تھی اور اس بات کا موقع انہیں بھارت نے خود فراہم کیا۔ اس تقریر سے دو چار گھنٹے پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں سوال رکھا گیا کہ آج ہمارے وزیر خارجہ اپنی تقریر میں کیا فرمائیں گے۔ عرض کیا پاکستان میں بڑے بڑے وزرائے خارجہ پیدا ہوئے ہیں جنہیں وژنری کہا جا سکتا ہے۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جن کا میں ویسے قائل نہیں ہوں۔ مثلاً ذوالفقار علی بھٹو‘ سر ظفر اللہ خاں۔ ایسے حضرات کے بارے میں اندازہ لگانا ممکن تھا کہ وہ خارجہ پالیسی کو کس سمت لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم ہمارے موجودہ وزیر خارجہ کے بارے میں ایسی کسی رائے کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ عمران خاں کی حکومت کے ترجمان ہیں جس کا بیانیہ سابقہ حکومت کی شدید مخالفت پر استوار ہے۔ اس کے باوجود آیا شاہ محمود قریشی ویسی ہی تقریر کرتے جو انہوں نے کی‘ اگر بھارت نے عمران خاں کے خط کے جواب میں نیو یارک میں وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کی دعوت قبول کر کے اسے فوراً ہی واپس نہ لے لیا ہوتا۔ اس یو ٹرن نے عمران حکومت کے لیے آسانی پیدا کر دی کہ اسے اقوام متحدہ میں کس طرح کی تقریر کرنا ہے۔ بھارت بھی وہ کچھ کر رہا تھا جو انتخابات کے ہنگام بی جے پی کے مخالفوں کو زیر کر سکے۔ اس نے ملاقات کی دعوت بھی اس لیے منسوخ کی تھی کہ ان کے ہاں رائے عامہ کو یہ تاثر ملنے کا اندیشہ تھا کہ حکومت پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہے۔ چنانچہ بھارت نے نہ صرف اس ملاقات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا‘ بلکہ چند ایسے اقدامات بھی کئے جس سے یہ تاثر ملا کہ مودی کی فوج پاکستان سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہے۔ اس صورت میںپاکستانی وزیر خارجہ سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ امن کے راگ الاپیں گے۔ یہ تو گویا خدا کی طرف سے دیا گیا موقع تھا کہ وہ کھل کر اور ڈٹ کر وہ باتیں کریں جس سے بھارت سے دو دو ہاتھ کرنے کا عندیہ ملتا ہو۔ اور اس میں سفارت کاری کے تقاضوں کو بھی نظر انداز کرنا پڑے تو کوئی حرج محسوس نہ ہو۔you asked for itپاکستانی حکومت کے لیے بھی یہ سنہری موقع تھا کہ اگر بھارت اپنے ملک کی رائے عامہ کو مخاطب ہے تو ہم بھی اسی لہجے میں اپنے لوگوں کو خوش کر لیں۔ اس کا کوئی خاص نقصان ہونے والا نہیں۔ یہ الزام بھی نہیں لگے گا کہ ہم نے امن کے دروازے اس تقریر سے بند کر دیے ہیں۔ جو کچھ کیا بھارت نے کیا‘ ہم نے تو محض جواب دیا ہے اور انہی کی زبان میں جواب دیا ہے۔ ایک بات کا کریڈٹ البتہ حکومت کو جاتا ہے کہ یہ فیصلہ کیا گیا یہ تقریر اردو میں ہو گی۔ ویسے تو شاید نواز شریف کے لیے بھی اردو میں تقریر کرنا زیادہ مناسب ہوتا۔ مگر اس وقت کا پروپیگنڈہ یہ ہوتا کہ دیکھو‘ ہمارے وزیر اعظم کو انگریزی نہیں آتی۔ ان کی تو اچھی باتیں بھی منفی بن جاتی تھیں۔ البتہ میرا خیال ہے کہ اردو میں تقریر کرنا تھی تو لکھوائی بھی اردو میں جاتی۔ انگریزی تقریر کا ترجمہ کرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے ہاں بڑے باکمال اردو لکھنے والے سول سروس میں شامل رہے ہیں۔ احمد شاہ پطرس بخاری‘ قدرت اللہ شہاب‘ الطاف گوہر جن کی انگریزی ہی قابل رشک نہ تھی‘ ان کی اردو بھی مثالی رہی ہے۔ آج کا علم نہیں‘ مگر ترجمے سے ایک طرح کی سفارتی سنجیدگی تو آ گئی‘ مگر وہ روانی نہ آئی جو ہماری زبان کی شان ہے۔ ویسے بھی شاہ محمود قریشی ایسی زبان میں رک رک کر بولتے ذرا اوپرے اوپرے سے محسوس ہوتے تھے۔ قطع نظر اس کے ان کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ امن و سلامتی کے سفیر بننے کے بجائے کھل کر بات کریں اور اس بہانے کشمیر کے مسئلے پر وہ زبان استعمال کریں جو پاکستانیوں کے دلوں کے تاروں کو چھیڑتی ہے۔ ان کے سامنے ایک طرف بھارت تھا‘ دوسری طرف ماضی کے پاکستانی حکمران جن پر تحریک انصاف الزام لگاتی تھی کہ وہ مودی کے یار ہیں۔ ان کی تقریر کے بعض حصے تو وزیر خارجہ سے زیادہ وزیر دفاع بلکہ وزیر جنگ کا لہجہ محسوس ہوتے تھے۔ اس لحاظ سے اچھا ہوا کہ ہم دنیا کے سامنے پاکستانی قوم کا موقف پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ مجھے نہیں معلوم ان باتوں کا عالمی رائے عامہ پر کیا اثر پڑے گا۔ اتنا اثر ضرور پڑے گا کہ دنیا جان لے گی کہ اس خطے میں سب ٹھیک نہیں ہے۔ یہ بھی اندازہ ہو جائے گا کہ سی پیک کا چینی منصوبہ اب سر چڑھ کر بول رہا ہے اور خطے کی صورت حال ایسی ہے کہ آپ ہر چیز کو ڈنڈے کے زور پر قابو میں نہیں رکھ سکتے۔ دنیا بدل رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نام نہاد سفارت کار اس تقریر میں کیڑے نکالیں‘ مگر یہ وقت کا تقاضا تھا۔ ہم برس ہا برس سے سفارت کاری کی نزاکتوں کا شکار ہوتے آئے ہیں اور شائستگی کے نام پر لجلجہ لہجہ اختیار کرنے ہی کو اپنی عظمت گنتے رہے ہیں۔ یہ نہیں ہوا کہ ہم نے دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ دل کھول کر بیان کیا ہو۔ یہ نہیں کہ اس جنرل اسمبلی میں ہماری طرف سے زور دار تقریر ہی نہیں ہوتی۔ اس میں جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں کی کوئی تفریق نہیں‘ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم ہمیشہ سفارت کار بنے بیٹھے رہے ہیں۔ لیکن جانئے اگر بھارت سرکارسشما سوراج سے مخدوم محمود قریشی کی ملاقات پر تیار رہتی‘تو ہمارا لہجہ قدرے مختلف ہوتا اس میں عمران خان یا نواز شریف کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اقوام متحدہ میں ہماری طرف سے یہ تقریر سال بھر کی سوچ بچار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر اس پر بڑا فرق ان حالات کا پڑتا ہے جو ان دنوں اس خطے میں روبہ عمل ہوتے ہیں جب یہ تقریر کی جانا ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم یہ تقریر کر کے خاموش بیٹھ جائیں یا ہمیں جائزہ لینا چاہیے بھارت کے ارادے کیا ہیں۔ اس تقریر سے نہ خطے کے حالات سنبھلیں گے نہ بھارت نچلا بیٹھے گا۔ ہمیں دیکھنا ہے‘ اس کے ارادے کیا ہیں۔ اس کا توڑ کرنا ہے۔ عسکری سطح پر بھی اور سفارتی سطح پر بھی۔ کیا ہم نے اپنے سفارت خانوں کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ ہماری اگلی حکمت عملی کیا ہے۔ ہم نے کیسے دنیا کو بتانا ہے کہ ہم امن پسند قوم ہیں۔ علاقے کے لیے ناگزیر ہیں اور اپنے دفاع کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ ملک کے اندر ہم جو چاہے کر لیں۔ مگر یہ اصل میدان جنگ نہیں۔ اس جنگ کو فی الحال بھول جائیں اور اصل جنگ کی طرف توجہ کریں۔ بھارت کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ انتخابات سے پہلے کوئی چھوٹی موٹی مہم جوئی کر سکتا ہے اور ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اس کا احساس ہو جانا چاہیے۔ ایک بات یاد رکھئے حالت جنگ میں سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ملک کے اندر امن پیدا کریں۔ ایسا دکھائی نہیں دیتا‘ حکمرانوں کی حکمت عملی‘ تقریریں‘ اقدامات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہ ابھی انتخابی معرکے سے باہر نہیں آئے۔ وہ پاکستان کے اندر اپنی کامیابی کا انحصار اس جنگ کو جاری رکھنے میں سمجھتے ہیں۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اگر آپ نے اپنے اندرون ملک مقاصد کی جنگ اور دشمن کی مسلط کی ہوئی بیرونی جنگ کو جیتنا ہے تو دونوں کے جیتنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ملک کے اندر یکجہتی کی فضا ہو۔ یہ حزب اختلاف سے زیادہ حکومت کی ضرورت ہے۔ بڑے جرنیلوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت بہت سارے محاذ نہیں کھولتے۔ اس وقت آپ نے باہر کا محاذ کھولا ہے اور درست کھولا ہے تو اندرون ملک سیز فائر کا بندوبست کیجئے۔ بات سمجھ آ گئی یا نہیں۔ توقع ہے آ گئی ہو گی۔