پاکستانی چینلز210 نے ارطغرل غازی اور کارا عثمان سے پہلے بھی ترکی ڈرامے اردو ڈبنگ کے ساتھ نشر کئے مگر مقبولیت کے جو ریکارڈ یہ دونوں ڈرامے قائم کر رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں‘ محدود سوچ کے بعض منفی مزاج عناصر نے ان ڈراموں کو پاکستانی چینلز پر نشر کرنے کی مخالفت کی مگر ان کی یہ مخالفت صدالبصحرا ثابت ہوئی کہ اس میں وزن تھا نہ منطق اور نہ کوئی معقول جواز‘ ایک اور ترکی ڈرامہ ’’پایۂ تخت عبدالحمید‘‘ ابھی تک کسی پاکستانی چینل نے نشر کرنا شروع نہیں کیا‘ جس دن یہ نشر ہو گیا مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم ہوں گے اور یہ ڈرامہ ناقدین کی رات کی نیندیں بھی حرام کر دے گا کہ سلطنت عثمانیہ کے دور زوال کے واقعات پر مبنی اس ڈرامے میں جنگ وجدل کے ساتھ رومان‘ ایکشن‘ تاریخ‘ محلاتی سازشیں‘ ٹریجڈی ‘ کم و بیش وہ تمام عناصر شامل ہیں جو ہر سطح ‘ مزاج اور ذوق کے ناظرین کی دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ترکی کا فرماں روا سلطان عبدالحمید ثانی عثمانی خاندان کا وہ مظلوم کردار ہے جسے صرف اس کے ذاتی اور نظریاتی مخالفین ہی نہیں‘ اپنوں نے بھی ولن سمجھا‘ سلطان کے بدترین دشمن انگریز اور فرانسیسی مصنفین کی طرح بیشتر مسلم مورخین نے صہیونی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر سلطان کو ایسا فرماں روا ثابت کیا جس کا زیادہ تر وقت حرم میں گزرتا‘ مختلف رنگ و نسل کی لاتعداد بیگمات‘ گلاب چہرہ کنیزیں‘ ساغر بدست‘ مست الست غلام اور اپنے فن میں طاق گویّے اس کا جی بہلاتے اور امور سلطنت کی انجام دہی کے لئے سلطان کے پاس وقت تھا نہ دماغ۔ تین براعظموں پر پھیلی عثمانی سلطنت کو 1876ء سے 1909ء تک امریکہ‘ برطانیہ‘ روس‘ فرانس‘ آسٹریا اور دیگر یورپی دشمنوں کے علاوہ اندرون ان کے گماشتوں کی سازشوں سے اسی سلطان عبدالحمید نے بچایا اور اقتدار کے آخری لمحے تک ایک صہیونی ریاست کے قیام کو روکا جس کے لئے امریکی سرمایہ کاری ‘یورپی سیاست کاری اور صہیونی فریب کاری یعنی جملہ اسباب و عوامل دستیاب تھے‘ پایۂ تخت سلطان عبدالحمید میں ایک ایسے حکمران کی نقشہ کشی کی گئی ہے جو یورپ کے مرد بیمار ترکی کو جدید خطوط پر استوار کرنے‘ سلطنت عثمانیہ کو اسلامیان عالم کی پناہ گاہ بنانے اور عرب و عجم کے امتیازات مٹا کر مسلمانوں کو قوم رسول ہاشمیؐ بنانے کے لئے کوشاں ہے مگر اُسے دشمنوں سے زیادہ اپنوں کی مخالفت اور ریشہ دوانیوں کا سامنا ہے ۔اس کے قریبی ساتھی فری میسن تحریک کے رکن بن کر سلطنت عثمانیہ کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور خواتین حرم ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما‘ حد تو یہ ہے کہ اس کا بہنوئی فری میسن تحریک کا وفادار اور مخبر ہے جبکہ بھانجا صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کے لئے تھیوڈر ہرزل اور اس کے قریبی ساتھی کراسو کا آلہ کار ہے۔ ڈرامے میں سلطنت عثمانیہ کی بیخ کنی‘ برطانیہ و آسٹریا کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور صیہونی ریاست کے قیام کے لئے کوشاں امریکی سرمایہ دار روتھ شیلڈ‘1997ء میں مشہور عالم صیہونی کانگریس کے روح رواں تھیوڈر ہرزل اور پامر کا کردار اسی تناظر میں پیش کیا گیا ہے جو تاریخ کی کتابوں میں درج ہے اور ان تینوں کا کردار اداکرنے والے اداکاروں نے حقیقتاً حق ادا کر دیا ہے‘’’پایۂ تخت‘‘ کا آغاز پیرس میں دکھائے جانے والے ایک سٹیج ڈرامے سے ہوتا ہے جس کا مقصد نبی آخر الزماں ﷺ کی تضحیک ہے‘مگر سلطان عبدالحمید استنبول میں بیٹھ کر اس ڈرامے کو رکواتے اور نبی آخر الزمان ﷺ سے اپنی عقیدت کا حق ادا کرتے ہیں‘ ویسے تو ڈرامہ اوّل سے آخر تک ترک قوم کی حضور اکرمؐ سے عقیدت و محبت کا مظہر ہے مگر ایک مقروض شخص کی سلطان کے دربار میں حاضری کا منظر ہر عاشق رسول ﷺ کے جذبات کو اتھل پتھل کر دیتا ہے‘ ایک شخص دربار میں حاضر ہوتا اور سلطان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کرتا ہے‘ سلطان کا مصاحب خاص سائل سے اپنا مسئلہ بیان کرنے کو کہتا ہے مگر وہ سلطان سے ملنے پر اصرار کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ عبدالحمید سے اپنا قرض وصول کرنے آیا ہے ۔تحسین پاشا سلطان سے محجوب انداز میں اس قرض خواہ کا ذکر کرتا ہے۔ سلطان اسے طلب کرتے اور پوچھتے ہیں کہ وہ اُن سے کون سا قرض وصول کرنے آیا ہے‘ سائل بتاتا ہے کہ وہ ایک تاجر ہے مگر تجارت میں خسارے کے سبب وہ کئی لوگوں کا مقروض ہے اور روزانہ ہر نماز میں مسبب الاسباب سے ادائیگی قرض کی دعا کرتا ہے‘ اُسے حضور اکرم ﷺ کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی آپ ﷺ نے سائل سے فرمایا کہ وہ سلطان کی خدمت میں حاضر ہو اور ’’میرے حمید‘‘ سے کہے کہ وہ اس کے قرض کی ادائیگی کا اہتمام کرے ۔حضور اکرم ﷺ نشانی یہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ شب سلطان نے وہ کام نہیں کیا جو اس کا معمول ہے‘ ’’میرے حمید‘‘ کے کہنے پر سلطان سائل کو اشرفیوں کی تھیلی عطا کرتا اور کہتا ہے ذرا پھر سے کہو آپ نے کیا فرمایا؟ سائل پھر کہتا ہے حضورؐ نے فرمایا ’’میرے حمید سے کہو‘‘ سلطان اُسے ہاتھ کے اشارے سے روکتا اور پھر اشرفیوں کی تھیلی تھما دیتا ہے۔ بار بار ’’میرے حمید‘‘ کی تکرار اوراشرفیوں کی تھیلی دینے کا منظر تحسین پاشا کو حیران اور آبدیدہ کر دیتا ہے۔ بالآخر سائل چلا جاتا ہے۔ تحسین پاشا عرض گزار ہوتا ہے کہ سلطان مجھے تو اندیشہ تھا کہ محل میں موجود ساری دولت ہی آپ سائل کو نہ بخش دیں‘ سلطان کہتا ہے! پاشا حضور ﷺ نے مجھ خوش نصیب کو’’میرے حمید ‘‘ کہہ کر پکارا‘ اس بول کے صدقے میں پوری ریاست قربان کرنے کو تیار ہوں‘ یہ بھی بتایا کہ میں روزانہ نماز عشاء کے بعد درود شریف کی ایک تسبیح حضورؐ کی نذر کرتا ہوں مگر گزشتہ شب کام کرتے کرتے مجھے نیند آ گئی اور آپؐ نے میری اس کوتاہی سے سائل کے ذریعے مجھے آگاہ کیا۔ ڈرامے میں محلاتی سازشیں عروج پر ہیں حتیٰ کہ سلطان کے بعض قریبی ساتھی بھی ان کا حصہ ہیں۔ روس اور دوسرے ممالک مسلسل سازشوں سے تنگ آ کر جن یہودیوں کو ملک بدر کرتے ہیں‘ انہیں سلطنت عثانیہ پناہ دیتی ہے ۔روسی زار یہودیوں کو کشتیوں میں بٹھا کر کھلے سمندر میں چھوڑ دیتے ہیں کہ غرق ہوں اور الزام ہم پر نہ آئے مگر سلطان عبدالحمید روایتی جذبہ رحمدلی کے تحت انہیں بچاتے اور ریاست میں روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرتے ہیں مگر عثمانی سرزمین پر اُترتے ہی یہ تھیوڈر ہرزل کے پڑھائے ہوئے سبق کے مطابق ریاست کی بیخ کنی اور سلطان کو جان سے مارنے کے لئے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں۔ ڈرامہ دیکھ کر زوال کے اسباب کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح خاندان کے لوگ ہی ادنیٰ خواہشات کی تکمیل کے لئے ریاست کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں اور اپنے دشمن کو گھر میں لا کر ان کے مذموم منصوبوں کی تکمیل میں مددگار ثابت ہوتے ہیں‘ خواتین حرم کی باہمی چپقلش ‘ حرم کے ماحول اور درباری آداب کے حوالے سے ڈرامے میں حقیقت نگاری کا رنگ غالب ہے اور ترکی ثقافت کی بھر پور عکاسی کی گئی۔ عظمت رفتہ کی بازیابی کے لئے دیگر ڈراموں کی طرح’’پایۂ تخت عبدالحمید‘‘ بھی موجودہ ترک حکمرانوں اور دانشوروں کی نظریاتی سوچ کا مظہر ہے جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ امریکہ و یورپ اور مختلف مذاہب و ثقافتی عناصر مسلمانوں کے کبھی اتحادی ہو سکتے ہیں نہ خیر خواہ ‘جب تک کہ ہم اپنے عقیدے کو خیر باد نہ کہہ دیں۔ مسلم دنیا کی موجودہ پستی اور اسرائیل کے سرپرستوں کی حالیہ سرگرمیوں کو سمجھنے کے لئے بھی یہ ڈرامہ دیکھنا لازم ہے‘ عمران خان نے ارطغرل اور یونس ایمرے جیسے ڈراموں کی تحسین کی‘ نوجوان نسل نے ذوق شوق سے دونوں ڈرامے دیکھے‘ میرا خیال ہے وہ اپنی عدیم الفرصتی کے سبب ’’پایۂ تخت عبدالحمید‘‘ نہیں دیکھ پائے‘ دوچار قسطیں دیکھ کر ہی جو ناظر کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے عمران خان اگر اسے دیکھ لیں تو یقینا دوسروں کو دیکھنے کی دعوت دیں گے کہ یہ ڈرامہ نہیں نشہ ہے جو ایک بار لگ جائے تو آسانی سے چھوٹتا نہیں‘ دلکش ‘ دلنشین ہوش ربااور دلچسپ۔