حکومت اور افسران بالا سے ہمیشہ آئوٹ سٹینڈنگ رپورٹس لینے والا۔جس نے دوران سروس تمام ٹریننگ کورسز میں ٹاپ کیا ۔ اسے دیانت و محنت سے بہترین کارکردگی پر تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ بڑے منصوبوں میں 150 ارب روپے سے زائد کی بچت کی ۔اصول و قواعد کا پابند،محنتی اور دوران ملازمت کچھ کرنے کا خواہش مند۔ احد چیمہ جس کے کریڈٹ پر بہت سے مفادعامہ کے پراجیکٹ ہیں۔ 2005ء میں احد چیمہ نے بطور کوارڈینیٹر ’’پڑھا لکھا پنجاب مہم‘‘ کو کامیاب بنایا۔ جب ہر بچے کو فری کتابیں ، سکول یونیفارم دیا گیا ۔ اس مہم کو عالمی پذیرائی ملی تھی۔2008ء میں جب شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے پنجاب کی بیوروکریسی کے خود انٹرویو کیے اور اپنی ٹیم بنائی۔احد چیمہ اس ٹیم کے اہم ستون تھے۔ احد خان چیمہ محنتی افسر ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کی تیز رفتاری اور شفافیت کے ساتھ تیاری اور تکمیل میں ایک دنیا ان کی معترف ہے۔ایل ڈی اے جیسے بدنام محکمے کو ڈیجیٹلائز کرنے اور عوامی مفاد کیلئے اصلاحات کا سہرہ بھی احد چیمہ کو جاتا ہے۔احد چیمہ کو ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کے ساتھ ساتھ میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین، لینڈ ریکارڈ کمپوٹرائزیشن، نندی پور پاور پراجیکٹ، سولر انرجی کے منصوبے اور آشیانہ ہائوسنگ سکیموں کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔ لاہور میٹرو بس سسٹم کا منصوبہ 11ماہ کی ریکارڈ مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ میٹرو بس کا 11 ماہ میں مکمل ہونا ایک معجزہ تھا جو احد چیمہ جیسے افسر کی بدولت ہی ممکن ہوا۔سی پیک کے تحت بنائے گئے ان منصوبوں کی تیز ترین تکمیل پر چین نے ان منصوبوں کو سرکاری طور پر ’پنجاب سپیڈ‘ کا نام دیا تھا۔ میٹروبس سسٹم منصوبے میں شاندار کارکردگی پر احد چیمہ کو صدر مملکت کی طرف سے تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ احد چیمہ کی انتھک جدوجہد سے توانائی سمیت کئی منصوبے ریکارڈ مدت میں مکمل ہوئے۔انہوں نے مذکورہ منصوبوں میں ناصرف گورنمنٹ کواربوں روپے کی بچت کروائی بلکہ تمام منصوبے قبل از وقت مکمل کیے۔ایشیاء کے دوسرے طویل ترین فلائی اوور کی ریکارڈ 230دن میں تعمیر انکا ہی کارنامہ ہے۔ احد چیمہ کی ان تمام خدمات کے بدلے ہم نے انہیں کیا دیا ؟ متعدد منصوبوں کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے اور اربوں روپے کی بچت کرنے والے افسر کی قابلیت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اسے قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار کیا۔ حکومت نے ساڑھے تین سال ملک و قوم کے لئے کچھ کرنے کے بجائے مخالف جماعتوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر توجہ مرکوز کیے رکھی ۔ تحریک انصاف جیسے ہی حکومت میں آئی انہوں نے آتے ہی ن لیگ کے ساتھ کام کرنے والی بیوروکریسی کی ٹیم کو بھی جیلوں میں ڈالنا شروع کردیا۔ احد چیمہ کو تین سال جیل میں رکھا گیا۔ انہیں شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ دورانِ حراست کیسوں میں تفتیش بھی سست روی کاشکار رہی۔ 66 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔200 سے زائد گواہ بنائے گئے۔تین سال پابند سلاسل کرکے ایک روپے کے کرپشن نہ ثابت کرسکے۔کرتے بھی کیسے ؟ جب سب کچھ مفروضوں پر مشتمل تھا۔ احد چیمہ نے نیب کے مختلف ریفرنسز کے باعث 38 ماہ جیل میں گزارے،انہیں تین سال حراست میں رکھنے کے بعد 2021 میں ضمانت دی گئی تھی۔سابقہ حکومت کے پریشر پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے بھی ای اینڈ ڈی رولز کے تحت انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس دیا اور چارج شیٹ فائل کی تھی۔ موجودہ وفاقی حکومت نے احد چیمہ کے خلاف چارج شیٹ واپس لیتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کیا کہ احد چیمہ کے خلاف تمام زیر التواء انکوائریاں مسترد کی جاتی ہیں۔ وزیراعظم نے احد چیمہ کو اہم عہدہ دینے کی پیشکش کی تھی مگر انہوں نے کسی بھی عہدے پر تعینات ہونے سے معذرت کرتے ہوئے پاکستان کی سب سے سپرئیر سروس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کیا کوئی احد چیمہ کے جیل میں گزارے وہ اذیت ناک تین سال لوٹا سکتا ہے؟ جو ذلت آمیز سلوک کیاگیا کیا اس کا مداوا ہوسکتا ہے ؟ایک غیر ت مند افسر مزید اس سسٹم کا حصہ بننا کیونکرپسند کرے گا ؟ شہباز شریف نے خود کو ایک زبردست منتظم ثابت کیا ۔ کام کے حوالے سے وہ ایک جنونی شخص ہیں۔بڑے بڑے منصوبے اصل لاگت سے بھی کم لاگت پر مکمل کئے گئے۔شہباز شریف کی یہ خوبی ان کے دشمن بھی مانتے ہیں کہ وہ ’’ریسٹ لیس‘‘کام کرتے ہیں اور اپنے ’’سرکل‘‘ میں بھی ایسے لوگوں کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔شہباز شریف نے دلبرداشتہ احد چیمہ کو اس بات پر قائل کرلیا کہ پاکستان اس وقت مشکل حالات میں ہے اور ایسے میں پاکستان کو احد چیمہ کی ضرورت ہے۔ احد چیمہ انکار نہ کرسکے ۔شہباز شریف کی کلوز ورکنگ ٹیم میں پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ،پرسنل سیکرٹری سمیر سید کے ساتھ ساتھ احد چیمہ کی شمولیت بہترین فیصلہ ثابت ہوگا۔امید ہے کہ احد چیمہ اپنی خداداد صلاحیتوں سے پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب ہوں گے۔ احد چیمہ چونکہ خود بھی ورلڈ بنک کے پراجیکٹس کا حصہ رہ چکے ہیں اس لیے ان سے توقع ہے کہ پاکستان میں ورلڈ بنک کے پراجیٹس پر پوسٹنگ کا ازسرنو جائزہ لیں کیوں کہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ مارچ کے مہینے میں پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت جاتے جاتے اپنے منظور نظر افسران اہم سیٹوں پر تعیناتکر گئی ہے ۔