Common frontend top

ڈاکٹر طاہر مسعود


ایک بے نام سی طلب کے سوا


اگر تارڑ صاحب کو یہ تکلیف ہے کہ ان کے قلم کا کوئی خریدار نہیں تو یہ دکھ ہمیں بھی ہے۔ مگر تارڑ صاحب اور ہمیں ‘ دونوں کو قطعی اندازہ نہیں کہ جو قیمت لگے گی اور اس کے عوض یہ عین ممکن ہے کہ ہم بھی بڑے فارم ہائوس کے مالک بن جائیں جس میں خوش رنگ پرندے ہمہ وقت چہچہاتے ہوں اور رات گئے تک خوش باش دوستوں کی محفلیں جمتی رہیں جس میں قومی سیاست دانوں کی حماقتیں اور ان کے بھول چوک کے لطائف سنائے جائیں اور ان پر قہقہے پڑتے رہیں۔ لیکن قلم کو
هفته 16 جون 2018ء مزید پڑھیے

معاملہ ہر کام میں دیر کردینے کا

جمعرات 14 جون 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
دفعتاً یہ خیال بجلی کی تیزی سے ہم پہ نازل ہوا کہ ہمیں اپنی صحت پہ توجہ دینی چاہیے۔ اپنے سراپے کا جائزہ لیا تو کھلا کہ پیٹ آگے کو نکل آیا تھا، وزن بھی بڑھ گیا تھا، کثرت سگریٹ نوشی ہے۔ چہرے پہ جھائیاں سی پڑ گئی تھیں۔ صحت کی اہمیت سے انکار تو ہمیں کبھی نہیں رہا۔ اپنے ملاقاتیوں سے بھی تواتر سے ہم کہتے رہے کہ ایک مدت تک اس ناچیز کی رائے تھی کہ دنیا میں وقت سے زیادہ قیمتی شے کوئی نہیں۔ وقت ایک بار گزر جائے تو پلٹ کر نہیں آتا اور یہ سمجھنا
مزید پڑھیے


پرامن بقائے باہمی برائے انسان و حیوان

اتوار 10 جون 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
نئے گھر میں ہمارا سابقہ پہلے ان کاکروچوں سے پڑا جو کمروں اور باتھ روموں میں نہایت دیدہ دلیری سے ادھر ادھر بھاگتے پھر رہے تھے۔ چونکہ میں بقائے باہمی کے سنہری اصول پہ یقین رکھتا ہوں اور ہر جاندار کو جینے کا حق دینے کا دل سے قائل ہوں اس لیے میں نے ان کاکروچوں کی سرگرمی کا ذرا نوٹس نہ لیا۔ لیکن میری بیوی حقیقت پسند واقع ہوئی ہے اس کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مالک مکان نے ایک خطیر کرائے کے عوض مکان پر رہنے کا حق صرف ہمیں منتقل کیا ہے اس لیے اس میں
مزید پڑھیے


داستانِ الم دراز نہیں

هفته 09 جون 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
رئوف کلاسرا ایک صاحب دل، صاحب کردار صحافی ہیں، مطالعے کے رسیا، کتابوں کے عاشق۔ اس لیے مجھے اچھے لگتے ہیں۔ آج کل وہ معرکۂ ریحام و عمران کی داستان میں اپنے تجربات و مشاہدات رقم کرنے میں مصروف ہیں۔ داستان کی خوبی یہ ہوتی ہے داستان گو لطف سخن اس طرح دراز کرتا ہے کہ پڑھنے والوں کی دلچسپی اور تجسس بڑھتے جاتے ہیں اور داستان شیطان کی آنت کی طرح پیچ در پیچ الجھتی اور کچھ سلجھتی آگے اور آگے کو چلتی چلی جاتی ہے۔ داستان کا دوسرا وصف اس کا مرکزی نکتہ ہوتا ہے جس کے گرد
مزید پڑھیے


یہ بھی کیا کوئی کتاب ہے؟

جمعه 08 جون 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
کوئی نہیں جانتا کہ جو چار اطراف ہنگامہ آرائی ‘ شورو غوغا اور اتھل پتھل ہے اس کی تہہ سے اچھل کر کیا نکلے گا اور گنبد نیلو فری رنگ بدلے گا بھی یا سب کچھ ویسا ہی اسی حالت میں رہے گا جیسا کہ ہے۔ اب سے نہیں صدیوں سے وہی ظلم و استحصال کا پرانا‘ فرسودہ نظام‘ وہی نابرابری اور عدم مساوات‘ وہی حیلہ پرویزی اور وہی بے بسی اور ناطاقتی عوام کی جو کروڑوں میں ہیں مگر سطح سمندر پر ابھر کر مٹ جانے والے بلبلوں کی طرح فنا پذیر اور غیر اہم۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا
مزید پڑھیے



جینا سب کے لیے

جمعرات 07 جون 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
کیسے ہوتا ہے یہ سب کے لیے جینا/ خود کو چھوڑ کر خود کو نظر انداز کر کے دوسروں کے دکھوں کو سمیٹ لینا، محسوس کرنا ان کے آنسوئوں کو پونچھنا اور پی جانا اپنے نمکین آنسوئوں کو ایسے ہی آتا ہے ایسے ہی سیکھتا ہے دوسروں کے لیے کیسے جیا جاتا ہے جب ہم دوسروں کے لیے سوچتے ہیں تو دوسرے ہمارے لیے ہمارے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں یہی ایک چیز ہے جو کم ہے جس کے سبب ہم ختم ہوتے جاتے ہیں دوسروں کی فکرمندی سے ہم جی اٹھتے ہیں اپنے اور دوسروں کے اندر ہمارا جینا دوسروں کے لیے ہمارا اپنا جینا بن جائے تو امر ہو جاتی ہے یہ زندگی اچھی بھی تو ہو جاتی ہے اے خدا! ہمیں سکھا دے بتا دے کیسے ہوتا ہے یہ کام کیسے ہم جی سکتے
مزید پڑھیے


امید بہار مگر اک ذرا آہستہ

اتوار 03 جون 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
تبدیلی دبے پائوں آتی ہے۔ ایسی تبدیلی جو دیرپا اور دور رس ہو۔ انقلاب دھوم دھڑکے سے آتا ہے۔ تخت کو گرا کے اور تاج کو اچھال کے آتا ہے۔ ایک جہاں کو تہہ و بالا کر کے اور ایک نظام کے بیخ و بُن کو اکھاڑ کے آتا ہے لیکن زندگی کے معمول پہ آتے ہی اس انقلاب کو بھی گھن لگ جاتا ہے اور حکومت و اقتدار کی لذت ‘ انسانوں کو محکوم بنانے کی ہوس ہی دیکھے گئے خواب کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے اور آخر آخر کو پتا چلتا ہے کہ ایک ظالم کی جگہ دوسرے
مزید پڑھیے


سعی و عمل سے تبدیلی

جمعرات 31 مئی 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
واقعہ تو یہ ہے کہ ہم انتخابات سے ڈسی ہوئی قوم ہیں۔ ملک کے پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں ملک ہی ٹوٹ گیا۔ دوسرے عام انتخابات ہوئے تو گیارہ سالہ فوجی آمریت مسلط ہو گئی اور منتخب سابق وزیر اعظم کو پھانسی دے دی گئی۔ تیسرے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے مگر نہ اسمبلی چل سکی نہ وزیر اعظم‘ دونوں کو گھر بھیج دیا گیا پھر مسلسل چار انتخابات ہوئے اور چاروں بار حکومتوں کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ بار بار کیوں ہوا؟ تاکہ عام آدمی اور اس کے ووٹ کی حکمرانی قائم نہ
مزید پڑھیے


عجب اک ’’سانحہ‘‘ سا ہوگیا ہے!

اتوار 27 مئی 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
ایک دن پہلے کے اخبار میں تصویر چھپی کہ لندن کے میئر صاحب جو خیر سے پاکستانی ہیں‘ بس سٹاپ پر کھڑے بس کے انتظار میں سوکھ رہے ہیں۔ ان کے قریب ہی ایک اور مسافر بھی اس انتظار میں میئر صاحب کے شریک ہے۔ اخبار نے کیپشن میں لکھا ہے کہ یہ صاحب ان کے ووٹر ہیں۔ گویا آج کی انگریزی زدہ اردو میں ہم یہ کہیں گے کہ ووٹ لینے والے میئر صاحب اور ووٹ دینے والے ووٹر صاحب دونوں ایک پیج یا ایک ہی صفحے پر ہیں۔ میئر صاحب کی ایک امتیازی حیثیت تو یہی ہے کہ
مزید پڑھیے


پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

جمعه 25 مئی 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
جب کوئی قوم‘ قوم بننے سے پہلے ہی قومیتوں میں بٹ جائے تبھی وہ بحثیں چھڑتی ہیں اپنی شناخت کی کہ پنجابی کوفی ہیں یا نہیں اور اپنے حقوق کی کہ مہاجر صوبہ کا مطالبہ کرنا مہاجروں کا حق ہے یا نہیں اور اس مطالبے پر لعنت بھیجنا جمہوری اخلاق و ضابطے کے مطابق درست ہے یا نہیں۔ ان بحثوں میں ایک پہلو تو شدید تاسف اور مایوسی کا ہے کہ جن مباحث کو اب تک طے ہو جانا چاہیے وہ تاحال طے نہیں ہوئے اور اب تک بحث طلب ہیں۔ دوسرا پہلو امیدو نشاط کا بھی ہے کہ فکری
مزید پڑھیے








اہم خبریں