Common frontend top

ڈاکٹر طاہر مسعود


ایک اور ہائیڈ پارک


خدا جانے یہ سچ ہے کہ گپ، جو لوگ صبح سویرے اٹھ کے اخبار نہیں پڑھتے، وہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر صحت مند رہتے ہیں۔ گویا فی زمانہ بے خبری اور عدم آگہی میں سکون اور چین و شانتی ہے۔ اس کے برعکس غور سے توجہ سے اخبار پڑھنے والے جلد یا بدیر ڈپریشن اور ذہنی تنائو کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وجہ کوئی اور نہیں، اخبارات میں خبریں ہی ایسی چھپتی ہیں کہ سائیکاٹرسٹ حضرات اپنے مریضوں کو پندرہ دن یا مہینے بھر تک دوا استعمال کرنے کے ساتھ اخبارات سے دور رہنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ہمارا
منگل 13 نومبر 2018ء مزید پڑھیے

فسانہ شہر آشوب کا

هفته 10 نومبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
برادر بزرگ سجاد میر صاحب نے اپنے گزشتہ کالم میں جس طرح تڑپ کر کراچی کو یاد کیا ہے اس کیفیت نے ہم کراچی والوں کو متاثر ہی نہیں کیا، رنگا رنگ تصویروں سے بھرا حافظے کا البم کھل گیا۔ کراچی میں رہتے ہوئے وہ کراچی سامنے آ کھڑا ہوا جو یادداشت کے نہاں خانے میں تو زندہ سلامت ہے لیکن عملاً موجود نہیں۔ اب جو کراچی حقیقت کی دنیا میں موجود ہے وہ لہولہان، غموں اور مصائب سے سے پریشان حال کراچی ہے جو بہ قول میرؔ صاحب کبھی ایک تہذیبی شہر ہوا کرتا تھا، جہاں پروفیسر کرار حسین،
مزید پڑھیے


دن کب اچھے آئیں گے؟

بدھ 07 نومبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
ایک ادیب یا لیکھکھ بنیادی طور پر خواب دیکھنے والا ہوتا ہے۔ وہ اپنے امید پرستانہ خوابوں سے اپنے لوگوں میں ہمت و حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ وہ تسلی کے چند بول سے ان افراد میں جو حالات سے مایوس اور احساس شکست سے دوچار ہوتے ہیں، زندگی کی حرکت و حرارت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ کیوں کہ گناہوں میں بڑا گناہ مایوسی ہے۔ اس رب العزت سے مایوسی جس نے نہایت پیار سے انسان کو اور اس کے رہنے سہنے کے لیے یہ کائنات خلق کی، جو کبھی انسان کو اکیلا، مایوس اور ملول نہیں چھوڑتا۔ بوجھ ڈالتا ہے
مزید پڑھیے


یہ ہمارے جذبات!

هفته 03 نومبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
مذہبی جذبات مقدس ہیں اگر وہ علم کے تابع ہوں۔ بصورت دیگر یہ جذبات فتنہ و فساد کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے دین میں دینی علم کا حاصل کرنا عورت اور مرد دونوں پر فرض کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم جتنا زور دنیاوی علوم کو سیکھنے پر دیتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی دینی علم کو حاصل کرنے پر نہیں دیتے۔ عام مشاہدہ ہے کہ محفلوں میں بالعموم مذہب اور سیاست ہی کے موضوعات گفتگوئوں کا موضوع بنتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان دونوں موضوعات پر گفتگو کے لیے بنیادی معلومات
مزید پڑھیے


ہم اور دوسرے!

جمعرات 01 نومبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
کسی بھی زندہ تہذیب کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کی ترجیحات اہمیت کے اعتبار سے درست ہوتی ہیں۔ معاشرے کے تمام طبقے اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ ایک دائرہ دیگر تمام دائروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر جملہ ترجیحات کو باہم گڈمڈ کر دے۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی یہی کیفیت ہے۔ مثلاً ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر ایک زرعی معاشرہ ہے لیکن ہماری خواہشات صنعتی معاشرے کی ہیں اور صنعتی معاشرہ صارفین کا معاشرہ ہوتا ہے۔ آدمی، آدمی کی حیثیت سے نہیں پہچانا جاتا، صارف یا خریدار
مزید پڑھیے



’’یہ مسلماں ہیں جنہیں…‘‘

پیر 29 اکتوبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
آثار و روایات میں آتا ہے کہ زمانہ جیسے جیسے دور نبویؐ سے دُور ہوتا جائے گا، ابتر ہی ہوتا جائے گا۔ کیا شبہ ہے اس میں کہ آپؐ کا دور مبارک ہی انسانیت کا بہترین دور تھا۔ اپنے رسول کی تعلیمات سے دوری ہی ہماری سب سے بڑی بدنصیبی ہے۔ المیہ فقط اس قدر ہے کہ ہم رسول کے عشق میں سرشار تو ہیں لیکن اطاعت سے محروم ہیں۔ جس کتاب میں یہ درج ہو کہ جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو وہ بھی دیکھ لے گا اور جس نے ادنیٰ سی برائی کی ہو، وہ بھی دیکھ
مزید پڑھیے


ہمارے قومی کلچر کا المیہ

هفته 27 اکتوبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
چینی کہاوت ہے بڑی بات سوچو بڑے بن جائو۔ آدمی اپنے آئیڈیل اور اپنے خوابوں سے پہچانا جاتا ہے۔ آدرش بلند ہو اور خواب پاکیزہ اور دل فریب ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ کوشش اور محنت بے ثمر ٹھہریں۔ ہم بحیثیت قوم کوئی بڑا آئیڈیل نہیں رکھتے، ہمارے خواب بھی خواب پریشان ہیں۔ ہم چھوٹے اور فروعی معاملات میں الجھے رہتے ہیں، ہمارے اختلافات اور تنازعات بھی کم و بیش گھٹیا ہی ہوتے ہیں۔ فکری اور نظریاتی اختلافات کا تو اب دور دور پتا نہیں چلتا۔ ہر معاملے کا سرا جا کر مالی مفادات سے جڑ جاتا ہے۔ عہدے
مزید پڑھیے


دوا کے بغیر دعا؟

جمعرات 25 اکتوبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا نے فرمایا کہ دعا تو دل کی تسلی کے لیے ہے ورنہ ہوتا وہی ہے جو اللہ جل شانہ چاہتے ہیں۔ حضرت کا یہ قول وزیراعظم عمران خان کی وہ تصویر دیکھ کر یاد آیا جس میں وہ مسجد نبویؐ میں نہایت خشوع و خضوع سے دعا مانگنے میں مصروف ہیں۔ ان کے ساتھ ہی وزیر خزانہ اسد عمر بھی بیٹھے ہیں۔ ملک بقول وزیراعظم اس وقت بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے اور دوست ممالک سے قرضہ نہ ملا تو دیوالیہ ہونے کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ یہ
مزید پڑھیے


مجرم کون!

پیر 22 اکتوبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
ہم میں کون مجرم ہے اور کون بے گناہ و بے قصور ہے۔ اس کا فیصلہ کون کرے؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس نوعیت کے فتوے یا سرٹیفکیٹ کرنے کے بجائے اپنے شعبے کا کام کیا جائے جو ذمہ داری آن پڑی ہے، اسے ہم محنت، محبت، خلوص اور ایمان داری سے پوری کریں۔ سیاست دانوں کی نالائقی اور بے عملی و بدمعاملگی کے الزامات سنتے سنتے ہمارے کان پک چکے ہیں۔ اسی دشنام طرازی کے سبب ہمیں کتنی ہی بار ’’عزیز ہم وطنو‘‘ سے مخاطب کر کے اصلی جمہوریت کے نفاذ کی خوش خبری سنائی گئی اور
مزید پڑھیے


تبدیلی مگر کیسے؟

جمعه 19 اکتوبر 2018ء
ڈاکٹر طاہر مسعود
فرد کبھی ناگزیر نہیں ہوتا۔ چاہے اس کی شخصیت کتنی ہی اور کیسی ہی بلند پایہ ہو۔ نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہی فطرت خلا کو پُر کردیتی ہے۔ بھٹو صاحب جن دنوں عوامی مقبولیت کے معراج پر تھے‘ لاہور کے ایک سوشل میگزین نے سوال اٹھایا تھا کہ ’’بھٹو نہیں تو کون؟‘‘ اور یہ سچ ہے کہ ان دنوں ملک میں کوئی بھی سیاست دان ایسا نہ تھا جو بھٹو کا نعم البدل ثابت ہوتا۔ آج پل کے نیچے سے اتنا پانی بہہ چکا ہے کہ پلٹ کر دیکھیں تو یہ سوال ہی احمقانہ لگتا ہے۔ یہ وقت ہے جو
مزید پڑھیے








اہم خبریں