دلبر محمد کا کہنا ہے کہ وہی ہوگا جو تقدیر میں لکھا ہے، ہاں مگر وہ ہرگز نہیں ہو گا جو اکثر لوگ سوچ رہے تھے، تحریک عدمِ اعتماد اور اس سے جڑے سارے کردار بشمول امریکا ،پٹے ہوئے مہرے اور بے ڈھب کی کٹھ پتلیاں ہیں، عوام کی اکثریت اور نوجوانوں کی بھاری اکثریت عمران خان کی پشت پر آن کھڑی ہے، تیسری درجے کے اداکاروں کی ٹولی اپنے تماشائی بھی ہمراہ لے کر نوٹنگی کرنے نکلی تھی جس گاؤں سے چلے ، قصبے سے گزرے ، شہر میں آئے، عام لوگوں نے ان کا تماشا مفت میں بھی نہیں دیکھا۔ کرایہ کے بچارے مزدور مردہ دلی کیساتھ گھورتے رہے، مگر کسی نے تالی تک نہیں بجائی، دوسری طرف کپتان کی وسل بجتے ہی گلی گلی ، شہر شہر سے ہجوم امڈ کر آیا، لاکھوں کا مجمع اسلام آباد کا سب سے بڑا میدان کناروں سے اوچھل پڑا، چاروں طرف بیس بیس میل تک شاہراہیں سیلابِ بلا کا منظر بند گئی۔ اس ناگہانی عوامی عفریت میں دو کام فوراً ہی کرڈالے ، پہلا یہ کہ تین عدد سیاسی مسخروں کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ جو اچھل اچھل کر نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے آئے تھے، ان کا پہلا مطالبہ یعنی نئے انتخابات ان کے گلے میں اندھے تیر کی طرح ترازو ہوگیا۔ ان کی دوسری خواہش یہ تھی کہ اگر انتخابات میں بیل منڈھے نہ چڑھے تو عمران خان سے نجات کیلئے مارشل لاء کو دوسری ترجیح کے طور پر قبول کرلیا جائے کہ عمران خان تو کسی ڈھب پر نہیں آتا لیکن دوسروں سے کام نکالنے کا انہیں وسیع تجربہ ہے۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن کی عمریں30 سال یا اس سے کم ہیں ، انہیں مصلحت سوجھے ،نہ بیش وکم کی فکر ستائے ۔ ان کا جوش اور دیوانہ پن دیکھ کر ہر کوئی سہم گیا ہے ، ’’ہر چہ دانا کند، کند ناداں، لیک بعد از خرابیٔ بسیار‘‘۔یعنی عقل مند جو کرتا ہے احمق بھی وہی کرتا ہے لیکن بڑی خرابی اور رسوائی کے بعد جس انتخاب کے نعرے سے دستبردار ہوکر وہ الٹے قدموں بھاگ کھڑے ہوئے تھے وہیں ان کی رفتار سے دوگنا تیز بھاگتا ہوا انہیں پیچھے سے آن لے گا۔ قارئین محترم کو اپریل 1993ء میں پنجاب اسمبلی کے اسٹیج پر کھیلا گیا ڈرامہ یاد ہوگاجب میاں نواز شریف کے نامزد وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کے خلاف بغاوت ہوئی اور انہیں اپنے عہدے سے ہٹا کر اسپیکر پنجاب اسمبلی میاں منظور احمد وٹو وزیر اعلیٰ بن گئے، 29مئی 1993ء کو وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو کی سفارش پر گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین نے پنجاب اسمبلی توڑ دی تھی، لاہور ہائی کورٹ نے 28جون 1993ء کو اسمبلی بحال کردی، بحالی کے فوراً بعد گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین نے وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر دوبارہ پنجاب اسمبلی توڑ دی۔ تب سپریم کورٹ کے فیصلے سے وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بحال ہونیوالے وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے ، مشترکہ قرارداد کے ذریعے پنجاب کی حکومت پر اپنا حکم نافذ کرنے کیلئے میاں اظہر کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کی جسارت کی ۔ اس مشترکہ اجلاس کی نمایاں بات اپوزیشن کی طرف سے اعتزاز احسن ممبر قومی اسمبلی کا خطاب بڑے معرکے کی چیز تھا جس میں میاں اظہر ولد فضل دین کو ٹیپ کا بند بناکر ہزاروں مرتبہ اسکی تکرار کی گئی تھی، بہرحال قرار داد بھاری اکثریت سے پاس ہوکر عملدرآمد کیلئے صدرپاکستان غلام اسحاق خان کی طرف بھیج دی گئی، ڈرامے کا سب سے سنسی خیز منظر یہاں سے شروع ہوتا ہے، گورنر پنجاب الطاف حسین اور سابق ہوجانیوالے وزیراعلیٰ منظور وٹو مذکورہ قرار داد پر عملدرآمد نہ کرنے کیلئے تجاویز لیکر صدر مملکت کے پاس پہنچے۔ ان کا جواب تھا کہ دونوں ایوانوں کی مشترکہ قرار داد کو صدر مملکت کس طرح نظر انداز کرسکتا ہے؟ٹکا سا جواب سن کر وہ بہت مایوس دل شکستہ صدر مملکت کے دفتر سے نکل کر برآمدے میں آئے تو راقم الحروف ان سے سامنا ہوگیا، وہ بہت مایوس ، افسردہ اور صدر پاکستان سے نالا نظر آئے، انہوں نے کہا ،آپ بھی صدر صاحب کو سمجھانے کی کوشش کریں۔ ورنہ ہم سب بشمول صدر پاکستان، میاں نواز شریف کے ہاتھوں تباہ ہوجائیں گے، اگلے دن اتوار کی چھٹی تھی، اپوزیشن قائدین بینظیر بھٹو ، نوابزادہ نصراللہ خان، پیر صاحب پگارا شریف ، قاضی حسین احمد ، صدرپاکستان سے ملاقات کرنے کی تمنائی تھے لیکن صدر سیاسی جوار بھاٹے کے دوران دفتر کی بجائے گھر میں ملاقات کرکے نواز شریف اور اسکے ڈھنڈورچیوں کو مزید تنقید کا موقع نہیں دینا چاہتے تھے، اعتزاز احسن چند رفقا کے ساتھ ایم این اے ہوسٹل میں مجھ سے ملے اور صدر صاحب سے اپوزیشن قائدین کی ملاقات طے کروانے کا کہا۔ راقم کی درخواست پر چھٹی کے دن یہ ملاقات ہوگئی لیکن انہیں صدرپاکستان کی طرف سے کوئی تسلی بخش اور مثبت جواب نہیں ملا، صدر غلام اسحاق خان خود خاموش اور مطمئن تھے۔ بعد میں انہوں نے راقم کو بتایا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس آئین کے مطابق صرف صدر پاکستان ہی بلاسکتے ہیں۔ اور مذکورہ اجلاس صدر کی ہدایت پر نہیں ہوا ، چنانچہ اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں تھی، اس حقیقت کو جانے بغیر سارے قائدین پریشان حال پھرتے رہے لیکن غلام اسحاق خان نے اصل حقیقت سے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ چنانچہ نواز شریف کا یہ حملہ یوں ہی گزر گیا۔ یہی اصول آج قومی اسمبلی کے اجلاس پر بھی لاگو ہوگا۔ اجلاس طلب کرنے کے صرف دو ہی طریقے ہیں، ایک یہ کہ وزیراعظم کی درخواست پر صدر مملکت طلب کریں یا پھر ایک چوتھائی ارکان اسمبلی کی درخواست پر اجلاس کو اسپیکر اسمبلی طلب کرسکتا ہے۔ اجلاس طلب کرنے کی کوئی تیسری صورت نہیں ہے۔ پاکستان کوئی بھی معاون ادارہ اسپیکر یا صدر پاکستان کو اجلاس طلب کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ اب یہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی صوابدید ہے کہ وہ آئین کو اپنی روح کے ساتھ نافذ کریں یا ایک معاون ادارے کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال کی طرف سے فیصلہ لکھے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر فاروق بندیال کے برابر چیف جسٹس کی تصاویر شائع کرکے انہیں بھائی قرار دیا جارہا ہے ، وہی فاروق بندیال سرگودھا کے معروف خاندان کا نوجوان جو آج کل بڑے ٹرانسپورٹ ہوتے ہیں۔ موصوف اپنے زمانے کی سب سے مصروف ، خوبصورت اور شریف النفس ادارکارہ شبنم کے گھر ڈکیتی اور بدکاری کے جرم میں چار ساتھیوں کے ہمراہ ملوث پائے گئے۔ جرم ثابت ہوگیا ، ضیاء الحق کا زمانہ ، مارشل لاء کی عدالت نے پانچوں ملزمان کو موت کی سزا سنادی۔ ایف کے بندیال بلند قامت ، نرم گفتار ، دیانتدار اور قابل بیوروکریٹ تھے، پنجاب کے چیف سیکرٹری بھی رہے۔ ان دنوں فیڈرل سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ بندیال برادری ان کی جان کو آگئی کہ نوجوان فاروق بندیال کو موت کی سزا سے بچائے، ایف کے بندیال بااثر تو تھے ہی، مگر اونچے حلقوں میںا ن کا بڑا احترام پایا جاتا تھا، وہ اجلال حیدر زیدی جو ضیاء الحق کے پسندیدہ بیوروکریٹ تھے انہیں ہمراہ لیکر ضیاء الحق ملے ، ہزار منت زاری سے فاروق بندیال کی معافی طلب کی ، ضیاء الحق نے کسی نہ کسی طرح شبنم کو اس نوجوان کی معافی کیلئے رضامند کیا یوں فاروق بندیال کی سزائے موت سے خلاصی ہوگئی، شبنم اپنے شوہر اور اکلوتے بیٹے کے ہمراہ بنگلہ دیش چلی گئی۔ چیف جسٹس بندیال ایف کے بندیال کے بیٹے ہیں مگر فاروق بندیال کے بھائی ہرگز نہیں۔ فاروق بندیال قریبی عزیز ہیں مگر بھائی نہیں۔ لہٰذا فیصلے کا حسن وقبح اپنی جگہ مگر انہیں فاروق کا بھائی قرار دیکر مطعون نہ کیا جائے ۔ہاں فیصلے پر بات ہو سکتی ہے۔