ایک شام میں اپنے ایک وکیل دوست اسد للہ شاہ کے دفتر جا نکلا ۔ ان کے بائیں ہاتھ ایک مسکین صورت، سراسیمہ نوجوان بیٹھا تھا۔ شاہ صاحب نے مجھ سے ہاتھ ملا یا،حال احوال پوچھا اور میرا منہ بند کرنے کے لئے سگریٹ پیش کردیا۔ اس نوجوان کے چہرے پر بے چارگی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے، اور وہ رحم طلب نظرو ں سے شاہ صاحب کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شاہ صاحب نے اسے گھور کر دیکھا تو وہ سرجھکا کر دائیں ٹانگ ہلانے لگا۔" ٹانگ مت ہلائو!" شاہ صاحب نے اسے ڈانٹا ۔ ڈانٹ سن کر نوجوان کی دونوں ٹانگیں ہلنے لگیں۔ میں نے سوچا شاید غریب سے کوئی سنگین جرم سر زد ہو گیا ہے اور وہ ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ہے۔شاہ صاحب نوجوان سے مخاطب ہوئے۔ " ہاں تو اس وقت کیا بجا تھا؟" " تقریباً چار یا پانچ بجے تھے" نوجوان بولا۔" لا حول ولا قوۃ ! چار بھی کہہ رہے ہو، پانچ بھی اور تقریباً بھی۔ چار کے ساتھ پانچ لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ کہو تقریباً چار بجے ہوں گے۔"" چار بجے ہوں گے ۔" وہ بولا"چوہدری صاحب کوٹھی کے لان میں تھے یا برآمدے میں؟" شاہ صاحب نے پوچھا۔" جی لان میں" "کرسی پر بیٹھے تھے یا چار پائی پر ؟ " " جی چار پائی پر" " یہ سنتے ہی شاہ صاحب طیش میں آگئے " تیرا بیڑہ غرق ! کرسی چھوڑ کر چارپائی پر کون بیٹھتا ہے آج کل! ـ" " بیٹھے نہیں، اُلّو کے پٹھے ، نیم دراز تھے" شاہ صاحب نے تصحیح کی۔"اُلّو کے پٹھّے نیم دراز تھے۔" " اُلّو کے پٹھّے کون بے؟" شاہ صاحب نے پُوچھا۔" جی ، چوہدری صاحب۔" نوجوان نے جواب دیا۔شاہ صاحب نے یہ سن کر سر پیٹ لیا۔ پھر نوجوان سے مخاطب ہوئے " جا ۔۔۔۔ چلا جا۔۔۔۔ خدا کے لیے میرا پیچھا چھوڑ دے ! کس احمق سے پالا پڑا ہے! میں کسی اور کو چشم دید گواہ بنا لوں گا۔" شاہ صاحب کی بات سُن کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ " اچھا تو یہ حضرت کسی مقدمے میں چشم دید گواہ ہیں۔" " اور کیا؟۔۔۔۔ پرسوں سے طوطے کی طرح رٹا رہا ہوں۔ کم بخت کی کھوپڑی میں کچھ بیٹھتا ہی نہیں" شاہ صاحب مایوسی سے بولے۔" برخوردار!" میں نے نوجوان سے کہا "تم چشم دید گواہ ہو کر چشم پوشی سے کیوں کام لے رہے ہو؟ تمہاری باتوں سے تو شک پڑتا ہے کہ تم وہاں سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔" " بھائی بخاری!" یہ کم بخت وہاں موجود ہوتا، تو بھی مقدمے کا بیڑہ غرق کر دیتا " شاہ صاحب بولے۔"ارے ! تو کیا جھوٹا گواہ بنا کر اپنی طرح اس کی عاقبت بھی خراب کر رہے ہو؟" میں نے کہا۔" تمہیں عاقبت کی پڑی ہے اور یہاں یہ فکر لگی ہے کہ کل پیشی ہے۔ اب فوری طور پر اس کی جگہ دوسرا چشم دید گواہ کہاں سے ملے گا؟" شاہ صاحب سوچ میں پڑ گئے۔" اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ تھوڑی ہمت کرو ۔ آہستہ آہستہ اسے سارے واقعات یاد آجائیں گے۔" میں نے شاہ صاحب کو تسلّی دی۔ "بکو!۔۔۔ چوہدری صاحب کرسی پر نیم دراز تھے " شاہ صاحب پھر نوجوان کی طرف متوجہ ہوئے۔ " چوہدری صاحب کرسی پر نیم دراز تھے۔ " نوجوان بولا۔"پھر کیا ہوا؟" شاہ صاحب نے پوچھا۔"اتنے میں شیخ صاحب آئے اور انہوں نے چوہدری صاحب کو کرائے کے پانچ ہزار روپے پیش کئے" وہ بولا۔"شاباش، بیٹا جی شاباش! اگر محنت کرتے رہو تو ایک دن بہت اچھے چشم دید گواہ بن جائو گے۔ کوئی بھی فن ہو بغیر محنت کے نہیں آتا" شاہ صاحب خوش ہو کر بولے ۔ "شیخ صاحب نے ہزار ہزار کے پانچ نوٹ دیے یا ایک نوٹ پانچ ہزار کا؟"ـ" جی ایک نوٹ پانچ ہزار کا " نوجوان نے کہا۔"تیرا بیڑہ غرق! اُن دنوں تو پانچ ہزار کا نوٹ ہوتا ہی نہیں تھا ۔""جی غلطی ہوگئی۔ ہزار ہزار کے پانچ نوٹ دیے تھے" "تو کیا چوہدری صاحب نے کرایہ لے لیا؟" ریہرسل پھر شروع ہو گئی۔"کرایہـ؟" نوجوان یوں بولا جیسے اس کی یاد داشت گھو گئی ہو۔"ہاں ، ہاں ، کرایہ۔ یاد کرو۔ کرایہ ۔ کیا چوہدری صاحب نے کرایہ لے لیا؟ دماغ پر زور دو بیٹا!" "چوہدری صاحب نے کرایہ لینے سے انکار کر دیا" نوجوان کو اچانک یاد آگیا۔ " شاباش! اب بتائو کہ چوہدری صاحب نے انکار کرتے وقت شیخ صاحب سے کیا کہا ؟" " چوہدری صاحب نے؟ ــ"" ہاں ، ہاں چوہدری صاحب نے۔" ـ" شیخ صاحب سے؟ " اس نے پوچھا۔"نہیں تیرے باپ سے" شاہ صاحب طیش میں آگئے۔ـ" میرے باپ سے؟ " نوجوان اب مکمل طور پر بد حواس ہو چکا تھا۔" اور کیا میرے باپ سے؟" یہ کہتے ہوئے شاہ صاحب کا دایاں ہاتھ اٹھا اور قریب تھا کہ نوجوان کو ایک زنّاٹے کا تھپڑّ پڑ جاتا، میں نے بڑھ کر شاہ صاحب کا ہاتھ پکڑلیا۔ " یار، تم تو بے چارے کو نروس کئے جا رہے ہو۔ آرام سے پوچھو تو سب ٹھیک بتا دے گا۔ آخر چشم دید گواہ ہے۔" شاہ صاحب میرے کہنے پر قدرے نرم پڑ گئے اور دوبارہ ریہرسل شروع ہو گئی۔" کرایہ لینے سے انکار کرتے وقت چوہدری صاحب نے شیخ صاحب سے کیا کہا ؟" شاہ صاحب نے نوجوان کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔" چوہدری صاحب نے شیخ صاحب سے کہا۔۔۔۔ چوہدری صاحب نے کہا۔۔۔۔۔ شیخ صاحب سے چوہدری صاحب نے کہا۔۔۔۔ کہا کہ۔۔۔"ـ" دفع ہو جائو ۔ ورنہ گولی مار دوں گا" شاہ صاحب کی آواز گونجی۔ یہ سنتے ہی نوجوان حواس باختہ ہو کر بھاگنے لگا تو اس کا پائوں کرسی سے اُلجھا اور وہ گھوم کر صوفے پر جا گرا۔ یہ دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا۔ ـ" یار، خدا کا خوف کرو! وکیل ہو کر گولی مارنے کی دھمکی دے رہے ہو؟ کیا تم مجھے بھی چشم دید گواہ بنانا چاہتے ہو؟" میں نے کہا۔ شاہ صاحب کو بھی غالباً اس بدنصیب پر رحم آگیا۔ غصّہ ضبط کرتے ہوئے بولے " برخوردار! میرے احمق بر خوردار! میں تمہیں یاد دلا رہا تھا کہ چوہدری صاحب نے کہا تھا، " دفع ہو جائو، ورنہ گولی مار دوں گا۔"