میں نے اپنے بیس سالہ صحافتی کیرئیر میں سینکڑوں پریس کانفرنسیں رپورٹ کی ہیں ۔جنرل مشرف کا 2007 ء کا دور ہو یا پھر چوہدری شجاعت حسین کی چند مہینوں پہ محیط حکومت بے نظیر اور نواز شریف کی وطن واپسی ہو یا پھر زرداری کا حادثاتی طور پر ملک کی سیاست کے سرخیل کے طور پر سامنے آنا ۔یوسف رضا گیلانی کا ہر ہفتے رپورٹروں کو پرائم منسٹر ہائوس بلانا یا پھر نواز شریف کا میڈیا کے ساتھ مڈ بھیڑ بہت کچھ دیکھا اور اس پہ لکھا۔ لیکن جو واقعہ 14مئی سہ پہر رونما ہواکم ازکم میرے صحافتی کیرئیر میں یہ پہلی بار ہوا ۔کوئی ڈیڑھ بجے وزارت اطلاعات کی طرف سے پیغام موصول ہوتا ہے کہ محترم پی ایم شاہد خاقان عباسی صاحب ہنگامی پریس کانفرنس کرنے جا رہے ہیں ۔وقت 1.42کا بتایا گیا ۔خیر بھاگم بھاگ انتہائی خوبصورت پہاڑی پہ واقع پی ایم ہائوس پہنچے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شاہد خاقان عباسی اپنے قائد کے احترام یا کسی اور وجہ سے پی ایم ہائوس میں منتقل نہیں ہوئے ۔28جولائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ایم ہائوس خالی پڑا ہے ۔انہوں نے اپنے ذاتی گھر جو کہ ایف سیون میں واقع ہے کو ہی پی ایم ہائوس کا درجہ دیا ہوا ہے ۔جب کانفرنس روم میں پہنچے تو وہاں شہر اقتدار کے تمام بڑے صحافی حضرات موجود تھے۔ تقریباً مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ تاخیر سے پی ایم صاحب تشریف لائے ۔اس دوران میرے زہن میں کئی ایک سوال جنم لے رہے تھے ۔کہ کیا وجہ بنی کہ پی ایم صاحب کو یہ پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔کیا وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ تو نہیں دینے جا رہے ہیں ۔غرضیکہ جتنی دیر پی ایم کا انتظار کیا صحافی لوگ اپنا اپنا تجزیہ دیتے رہے ۔لیکن اس روز جو شاہد خاقان عباسی نے کیا وہ ملکی تاریخ میں انتہائی نامناسب الفاظ میں یاد رکھا جائے گا ۔میں شرمناک کا لفظ استعمال کرنا چاہتا تھا لیکن پی ایم کے عہدے کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایسے الفاظ سے گریز کیا ۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ پی ایم صاحب بغیر کوئی تمہید باندھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو کچھ نواز شریف کے نام سے ممبئی حملوں کے حوالے سے منسوب کیا جا رہا ہے وہ غلط ہے ۔ڈان اخبار میں جو رپورٹ ہوا وہ غلط ہے ۔اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ساتھ ساتھ وہ فرماتے ہیں کہ سلامتی کمیٹی نے اس خبر اور اس سے ابھرنے والے تاثر کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ پی ایم عباسی کا اتنا ہی کہنا تھا کہ کانفرنس روم کے تمام اطراف سے سوالات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی ۔ہوا کچھ یوں تھا 14مئی والے دن صبح نواز شریف احتساب عدالت میں پیشی کے دوران بیان دے چکے تھے کہ انہوں نے ڈان اخبار میں جو انٹرویو دیا ہے وہ سب سچ ہے ۔نواز شریف فرماتے ہیں کہ 2008ء میں ممبئی حملے میں شامل دہشت گرد پاکستان سے گئے تھے ۔اور اس کے بعد پکڑے جانے والے دہشت گردوں کے خلاف عدالتی کارروائی میں لیت ولعل سے کام لیا گیا۔قصہ مختصر ریاست پاکستان اس حملے میں شریک تھی۔یقینی طور پر اس بیان پر ریاست پاکستان کی طرف سے شدید ردعمل آنا تھا اور آیا بھی ۔یہ کوئی چھوٹا بیان نہیں تھا نواز شریف کے اس بیان کو انڈین میڈیا اور حکومت نے ہاتھوں ہاتھ لیا اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی پاکستان مخالف قوتوں نے بھی شور مچایا ،اس بیان کا خمیازہ اور نقصان جو اس ملک کو بھگتنا پڑے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گالیکن بظاہر نوا زشریف کی طرف سے یہ بیان یقینی طور پر کسی نا کسی سوچی سمجھی پلاننگ کے بغیر نہیں دیا جا سکتا ۔ مجھ سمیت درجن سے زیادہ صحافی جو اس وقت وہاں موجود تھے خاقان عباسی صاحب سے بار بار پوچھ رہے تھے کہ آپ کیسے ایک بات کو مسترد کر سکتے ہیں جو کسی اور نے کی ہے اور وہ اس پر قائم ہے۔ہر سوال کے جواب میں وہ یہ کہتے کہ نواز شریف نے ان سے اس ملاقات میں ڈان اخبار میں چھپنے والی خبر کی تردید کی ہے ۔ہر سوال کے بعد صحافی اپنا سامنہ لے کر رہ جاتے کیونکہ عباسی صاحب ذرہ بھر پانی اپنے پروں پر نہیں پڑ نے دے رہے ۔ پریس کانفرنس سے پہلے مجھ سمیت تمام صحافیوں کو یہی بتایا گیا تھا کہ میڈیا ٹاک کو براہ راست پاکستان ٹیلی ویژن پہ دکھایا جائے گا ۔جب ہم تمام صحافی پریس کانفرس ختم کر کے باہر آئے تو تمام صحافیوں کے فونز missed callsاور پیغامات سے بھرے ہوئے تھے جو انہیں اپنے متعلقہ ٹیلی وژن نیوز روم سے موصول ہوئے تھے ۔چونکہ پی ایم کی میڈیا ٹاک براہ راست نشر نہیں ہوئی اس لئے ہر صحافی کے متعلقہ ادارے کو خبر چاہیے تھی ۔ بعد میں تھوڑی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ چونکہ پی ایم اور انکی ٹیم کو اس بات کا علم تھا کہ ان کی کہی ہوئی بات کو ئی common sense رکھنے والا صحافی نہیں مانے گا ۔اور نا ہی لوگ جو پی ٹی وی پر دیکھیں گے۔اب اطلاعات یہ ہیں کہ اس ساری پریس کانفرنس کی ریکارڈنگ کو ہی ضائع کر دیا گیا ہے کہ عباسی صاحب کو مزید حزیمت کا سامنا نا کرنا پڑے ۔اس کے بعد نواز شریف نے قومی سلامتی کے بیان کو بھی مسترد کر دیا۔ دو ہاتھ آگے جاتے ہوئے جناب یہ بھی فرما رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں مزید انکشافات کریں گے ۔چلیں نواز شریف تو عدالت عظمیٰ کی طرف سے نااہل ٹھہرے۔احتساب عدالت میں کیسز کا ان کو سامنا ہے ۔عباسی صاحب کیوں اتنے شتر بے مہار کی طرح behaveکر رہے ہیں ۔محترم عباسی صاحب کو ایک بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ وہ 22کروڑ عوام کے پی ایم ہیں ان کو اپنی نہیں تو اس عہدے کی عزت کا تو ضرورخیال رکھنا چاہئے ۔جہاں تک ووٹ کی عزت اور احترام کا تعلق ہے تو آئندہ انتخابات کو صرف دو سے تین ماہ باقی رہ گئے ہیں عوام جس کو ووٹ دے گی وہ حکومت سنبھال لے گا لہٰذان لیگ کی قیادت کو اس موقع پر بجائے ملک کے اندر سیاسی انتشار کو فروغ دینے کے انتخابات پر توجہ دینی چاہئے ۔