میرا مرحوم دوست سلمان بٹ اور اس کی بیگم اکثر حالت جنگ میں رہتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ بٹ صاحب رات بہت دیر سے گھر پہنچتے تھے۔ ایک اتوار کو میں انہیں ملنے گیا تو ایک شور محشر کان میں پڑا۔ میں دروازے پر دستک دیے بغیر ہی ڈرتے ڈرتے میدان کارزار میں داخل ہوگیا۔ پتہ چلا کہ وہی گھر رات دیر سے پہنچنے کا مسئلہ تھا۔ میں نے بھابھی جی کے موٗقف کو درست قرار دیتے ہوئے سلمان کو بہت سخت سست کہا۔ انھوں نے حزبِ اختلاف کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پکا بلکہ لوہے توڑ وعدہ کیا کہ وہ آئندہ جلد گھر آجایا کریں گے۔ اس کے بعد ہم نے اس تاریخی معاہدے کی خوشی میں گرم چائے پی۔ (دسمبر کا مہینہ تھا)۔ چند دن بعد پھر بٹ صاحب کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ گھر میں صورتِ حال کو پُرامن اور اطمینان بخش دیکھ کر میں نے بھابھی سے کہا، ـ" اب تو رات جلدی گھر آجاتے ہیں نا بٹ صاحب!" اس کے جواب میں بھابھی نے انگریزی میں کہا: "Of course, now he comes home very early" "How early?" I asked. "Early in the morning" , she replied. ٭ارسلان میرا بھتیجا ہے۔ پیدائش سے لے کر او لیول تک وہ انگلینڈ میں رہا ۔ 2019 میں والدین کے ہمراہ پاکستان میں آگیا اور لاہور کے ایک کالج میں فرسٹ ائیر میں داخل ہو گیا۔ اس کی اردو مناسب ہے کیونکہ گھر میں اُردو ہی بولی جاتی ہے۔ ایک روز بھابھی ( ارسلان کی والدہ) نے فون پر مجھے کہا ، "بھائی جان ارسلان آپ کے پاس آرہا ہے۔ اس کو اُردو کا ہوم ورک ملا ہے۔ اسے کروا دیجئے ۔" تھوڑی دیر بعد ارسلان میاں تشریف لے آئے ۔ کہنے لگے، "انکل! اردو کے ٹیچر نے اسائین منٹ دی ہے کہ اس POEM کی تشریح لکھ کر لائو۔" میںنے کہا، "لائو دکھائو"۔ دیکھا تو وہ فیض کی مشہور غزل تھی: گلوں میں رنگ بھرے باد ِ نو بہار چلے ،چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے میں نے کہا، "بیٹا یہ POEM ہی ہوتی ہے۔ فی الحال چھوڑو اس بات کو۔ غزل کی تشریح سُنو۔ مطلع ہے"۔ "و ہ کیا ہوتا ہے؟ وہ جو صاف ہوتا ہے؟ ماما کہا کرتی ہیں آج مطلع صاف ہے" " ماما کو گولی مارو یار۔ اوہ آئی ایم سوری۔ میرا مطلب ہے ماما کا ذکر چھوڑو۔ غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں۔ آخری شعر کو مقطع کہتے ہیں۔" " بیچ والے شعروں کو کیا کہتے ہیں؟" " بیچ والے شعروں کو کُچھ نہیں کہتے" ـ" کیوں نہیں کہتے؟" " ان کا کوئی قصور نہیں ہوتانا " " کیا مطلب انکل؟" " کُچھ نہیں، کُچھ نہیں۔ ایسے ہی مُنہ سے نکل گیا۔ مطلعے کا پہلا مصرعہ ہے۔۔۔۔۔" " مطلعے میں کتنے مصرعے ہوتے ہیں؟" " تمہاری کتنی ٹانگیں ہیں؟" " دو" ـ" مطلعے کے بھی دو ہی مصرعے ہوتے ہیں" " غزل HUMAN باڈی کے مطابق لکھی جاتی ہے؟" " یار ایک تو تم بولتے بہت ہو۔ سنو زیادہ بولو کم۔ " " ٹھیک ہے، سنائیں۔ " ـ" تو سنو۔ شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں آج ایک چمن میں آکر بیٹھا ہوں یعنی کہ ایک گارڈن میں آکر بیٹھا ہوں" " انکل، یہ محبوب کون ہے؟" " محبوب ایک شخص ہے جس سے شاعر محبت کرتا ہے" " یہ جو محبوب ہے، یہ مرد ہے کہ عورت؟" " یار اس بات کا تو ابھی شاعر کو خود بھی ٹھیک سے پتہ نہیں چل سکا۔" ـ"شاعر تو مرد ہے نا؟" ـ" ہاں بھئی۔ فیض صاحب ! سب کو معلوم ہے مرد تھے۔" ــ ــ" تو پھر انکل یہ محبوب فیض صاحب کی گرل فرینڈ ہو گی۔ لندن میں میری بھی ایک گرل فرینڈ ہے۔" " یار گولی مارو اپنی گرل فرینڈ کو۔ شعر کا مطلب سمجھو " " سمجھائیں" " ہاں تو ہوا یوں کہ شاعر اپنے گھر کے قریب ایک چمن میں آکر بیٹھا۔ اُس نے دیکھا کہ چمن میں جتنے بھی پھول ہیں اُن سب کا رنگ اُڑ چکا ہے۔" ـ" مطلب سب پھول وائیٹ ہو چکے ہیں؟" " بالکل وائیٹ۔ پیور وائیٹ ۔ شاعر پھولوں کا یہ حال دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے۔" " انکل اس میں پریشانی کی کیا بات ہے! سفید پھول بھی دیکھنے میں بُرے نہیں لگتے۔" " تُم سمجھ نہیں رہے یار! پھولوں کا حُلیہ بگڑ گیاہے۔ مکمل بیڑا غرق ہو گیا ہے۔ یہ دیکھ کر شاعر بے حد اُداس ہو گیاہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پھول پھر سے ہرے بھرے ہو جائیں، اُن پر پھر سے رنگ چڑھ جائے اور یہ پہلے جیسے ہو جائیں۔" " یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ انکل ، یہ شاعر پاگل ہے؟" یہ سُن کر میں نے کہا : ـ" بیٹا ارسلان ، اب تک کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔ اب تُم شام ک چھے کے قریب آنا ۔ میرا بلڈ پریشر قدرے بڑھ گیا ہے۔ انشا ء اللہ شام تک ٹھیک ہو جائے گا۔" "اوکے انکل" یہ کہہ کر وُہ رُخصت ہو گیا۔ ٭ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں گورنمنٹ ـکالج لاہور میں ایم اے کا طالب علم تھا۔ ہمارے ایک دوست نسیم ریاض شاعر تھے ۔ وہ ہماری ایک ہم جماعت تسنیم کوثر کے عشق میں گرفتار تھے اور اسے (تخیل میں) سامنے رکھ کر عشقیہ شاعری کرتے تھے لیکن انھیں کبھی اظہار محبت کا حوصلہ نہیں ہوا تھا۔ ایک روز ہم کالج کے لان میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ نسیم ریاض نے تسنیم کی نظر بچا کر اس کی کاپی کھسکائی اور اس پر یہ شعر لکھ دیا: اور سے اور ہوئی جاتی ہو قابلِ غور ہوئی جاتی ہو کرناخدا کا یہ ہوا کہ جب وہ کاپی واپس رکھ رہا تھا، تسنیم نے دیکھ لیا، اس نے کاپی اُٹھا کر شعر پڑھا تو شدید غصّے کے عالم میں بولی: "یہ بدتمیزی کی انتہا ہے" ۔ یہ سُن کر میرے مُنہ سے بے اختیار نکلا: "نہیں تسنیم ، یہ بد تمیزی کی ابتدا ہے۔"