سپریم کورٹ آف پاکستان نے کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اقدامات اور نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی(این سی سی) کے فیصلوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جامع قومی پالیسی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جامع پالیسی کے سلسلے میں اقدامات نہ کیے تو معزز عدالت اس حوالے سے عبوری حکم جاری کرنے پر مجبور ہو گی۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے اقدامات اور اختلافات کا سلسلہ بلوچستان کے علاقے تفتان میں ایران سے آنے والے زائرین سے شروع ہوا۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان سے تفتان میں زائرین کو قرنطینہ کرنے کی ہدایت کی۔ مقامی انتظامیہ نے اس سلسلہ میں کوتاہی برتی۔ تفتان اور اس کے نواحی علاقوں میں کئی ہوٹل، سرائے اور سرکاری عمارات میں مناسب سہولیات موجود تھیں لیکن زائرین کو ایسی عمارت میں رکھا گیا جہاں انہیں سائے کے لیے پلاسٹک کی شیٹ تان کر گزارا کرنا پڑا، بیت الخلا کا انتظام نہ تھا۔ صاف پانی کے لیے مشکلات اور کھانے کا سامان دقت سے میسر آتا۔ اس قرنطینہ سنٹر میں بڑی تعداد میں لوگ بغیر حفاظتی تدابیر کے محصور کر دیئے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زائرین فرار ہونے لگے۔ کئی معاملات میں سرکاری حکام کو رشوت دے کر نکلنے کی رپورٹس موصول ہوئیں۔ ان زائرین میں سے کورونا کا پہلا مریض بھی شامل تھا جو کراچی آیا۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان کے حفاظتی اقدامات اور ضروری وسائل پر دھیان نہ دیا جس سے بعض خرابیاں ظاہر ہوئیں۔ سندھ حکومت نے کورونا کے انسداد کے لیے ابتدا میں خاصی دوڑ دھوپ کی۔ آغاز میں وفاق اور سندھ میں ایک اچھا تعاون دکھائی دے رہا تھا۔ اس سے کورونا کے نئے مریضوں کی تعداد قابو میں رہی۔ بلا شبہ لاک ڈائون نے ہر شہری کو متاثر کیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں لوگوں کی بڑی تعداد دیہاڑی دار طبقے پر مشتمل ہے، کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور دیہاڑی دار آبادی کا گڑھ ہے۔ لاک ڈائون سے چند ہی روز بعد کراچی کے کئی علاقوں میں لوگ سڑکوں پر آ گئے۔ عوامی دبائو پر صوبے نے مرکز سے مالی امداد کا تقاضا کر دیا۔مرکز نے جواب دیا کہ سندھ حکومت کو نقد فنڈز نہیں دیئے جا سکتے۔ صوبائی حکومت اپنی ضروریات سے آگاہ کرے مرکز وہ پوری کرے گا۔ اس مؤقف کے دفاع میں وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں ترقیاتی کاموں اور خاص منصوبوں کے لیے مرکز نے جب بھی رقم فراہم کی وہ بدعنوانی کی نذر ہو گئی۔ سندھ حکومت کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ ایئرپورٹ صوبے کے اختیار میں نہیں مگر سندھ حکومت نے کراچی ایئر پورٹ پر اپنے ڈاکٹر اور طبی عملے کو تعینات کیا اور ہزاروں مسافروں کی سکریننگ کی۔ کوئی بحران جب ریاست کو درپیش ہو تو ایسی رکاوٹیں دور کرنا پہلا کام ہوتا ہے جو قوم کو تقسیم کرتی ہیں۔ ملک میں کمزور سہی لیکن جمہوریت ہے۔ صوبوں اور مرکز میں جو سیاسی جماعتیں اقتدار میں شرکت دار ہیں وہ جمہوریت کی بقا چاہتی ہیں۔کورونا نے ملک کے انتظامی اور معاشی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لوگ اپنے کاروبار سے محروم ہوئے ہیں۔ ذاتی اور خاندان کی ضروریات ہیں، اداروں کے مالکان کے دکھ اس سے بھی سوا ہیں۔ انہیں اپنے گھر کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے گھر چلانا ہوتے ہیں جو ان کے ہاں ملازمت کرتے ہیں۔ حکومت کی بات کی جائے تو اس کے پاس محدود بجٹ ہے لیکن ایک تربیت یافتہ انتظامیہ کی صلاحیت ہے جو ہر قسم کے حالات میں فوری طور پر ایسا نظام ترتیب دے سکتی ہے جو درپیش خطرات کی شدت کم کر سکے۔ اس وقت پاکستان کو کئی عالمی اداروں اور دوست ممالک کی طرف سے کورونا کے انسداد کے لیے امداد مل رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے نقد رقم احساس کفالت پروگرام کے ذریعے مستحق افراد تک پہنچانے کا انتظام کیا ہے۔ احساس پروگرام کے تحت سندھ کے لوگوں کو بھی امدادی رقوم فراہم کی جا رہی ہیں جسے بعض مقامی سیاستدان پیپلزپارٹی کا پروگرام بتا کر سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اسی طرح مرکزی حکومت نے مستحقین تک امداد پہنچانے کے لیے ٹائیگر فورس قائم کی ہے۔ باقی صوبوں کو اعتراض نہیں لیکن سندھ حکومت اس فورس کو سیاسی قرار دیتی ہے۔ اسی لیے ٹائیگر فورس کی خدمات لینے سے بھی انکار کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال اطمینان بخش نہیں۔ سب سے بڑا اختلاف اب لاک ڈائون کو جاری رکھنے اور نہ رکھنے پر ہے۔ ایک پہلو لاک ڈائون سخت یا نرم کرنے کا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ لاک ڈائون مجبوری میں کیا گیا فیصلہ ہے اور اب تک دنیا میں کورونا کے پھیلائو کو روکنے کا اگر کوئی طریقہ کارگر ثابت ہوا ہے تو وہ لاک ڈائون ہے۔ تعجب اس امر پر ہے کہ اس معاملے پر سیاست کیوں کی جا رہی ہے۔ یقینا وفاق نے صوبوں کو یہ اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنے مقامی حالات کے مطابق لاک ڈائون کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح مرکز نے تعمیراتی صنعت کو کھولنے کا حکم دے کر کورونا کے باعث بڑھتی بیروزگاری کو روکنے کی کوشش کی۔ کسی صوبے کا خیال ہے کہ اگر اس کے ہاں ریونیو کے حوالے سے اہم کچھ شعبوں کو کھول دینا چاہئے تو وفاق سے بات کی جا سکتی ہے۔ اس طرح کی مشاورت اور تبادلہ خیال سے گریز مشکلات میں اضافے کا باعث ہو سکتا ہے۔ سیاسی قائدین کو یہ امر ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ کورونا کا دورانیہ طویل ہو سکتا ہے لہٰذا اس کے نقصانات کا حجم کم سے کم رکھنے کے لیے وفاق اور صوبوں کو مل بیٹھ کر جلد سے جلد ایک جامع پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ایسا تجربہ ماضی میں دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان ترتیب دے کر کیا جا چکا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ اس سلسلے میں معزز عدالت عظمیٰ کو زحمت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔