پیپلز پارٹی پنجاب میںہارتے ہوئے داؤ لگانے سے اب تک باز نہیں آ رہی۔ اس پارٹی کو معلوم ہے کہ موجودہ حالات میں سیاسی تبدیلی کی سرزمین پنجاب ہے۔ اگر کسی پارٹی کاپنجاب میںووٹ بینک نہیں ہے توپھر وہ جدیدمعنی میں ملک کی وفاقی پارٹی ہونے کا اعزاز حاصل نہیں کرسکتی۔ پنجاب صرف اس حوالے سے اہم نہیں ہے کہ اس کی آبادی زیادہ ہے بلکہ پنجاب کی سیاسی اہمیت اب اس امر میں پوشیدہ ہے کہ وہاں سیاسی ایکٹوزم بہت بڑھ گیا ہے۔ پنجاب سیاسی طور پر پاکستان کا بیدار صوبہ بن گیا ہے۔ اس دور میں پنجاب وہ پنجاب نہیں ہے جوخالی وعدوںپر اعتبار کرکے میدان میںاتر آتا تھا ۔ اب پنجاب سوچ سمجھ کر سیاسی فیصلے کرنے لگا ہے۔اس تبدیلی نے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اجنبی بنا دیا ہے۔پیپلز پارٹی کی بھر پور کوشش ہے کہ وہ کسی طرح سے پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت پھر سے حاصل کرے مگر افسوس کہ وہ پارٹی جس کا جنم پنجاب میں ہوا تھا،اب اس پارٹی کے لیے پنجاب میں کوئی گنجائش نہیں بچی۔کیا اس تبدیلی کا سبب پنجاب کی بے وفائی ہے؟ اگر ہے تو پیپلز پارٹی اس بارے میں اپنافریادی موقف کیوں پیش نہیں کرتی؟پیپلز پارٹی کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ پنجاب نے اس کے ساتھ کوئی بے وفائی نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کے بدلے ہوئے کردار کی وجہ سے پنجاب مجبور ہوکر اس پارٹی سے دور ہوتا گیا،جس پارٹی پر کبھی پنجاب کو ناز تھا۔ پنجاب کو صرف یہ شکایت نہیں کہ پیپلز پارٹی کاکردار تبدیل ہوگیا ہے بلکہ پنجاب کو اصل دکھ اس قیادت کی تبدیلی کا ہے جس نے پنجاب کو شدید صدمے سے دوچار کیا۔ اس حقیقت سے انکار کرنابہت مشکل ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بینظیر بھٹو کی قیادت میں جمہوری جدوجہد کرنے والاپنجاب اقتدار میںآنے والی بینظیر میں بھٹو تلاش کرتا رہا۔وہ بھٹوجس کے بارے میں نہ صرف لاہور بلکہ پورے پنجاب میںیہ نعرے لگا کرتے تھے کہ’’بھٹو دے نعرے وجن گے‘‘ بینظیر میں کھویا ہوابھٹو کبھی کبھی نظر بھی آجا تا تھا مگر بینظیر کے بعد زرداری میں تو ایک پل کے لیے بھی بینظیر بھٹو کا وہ سیاسی جلوہ نظر نہیں آیا،جس سے پانچ دریاؤں کی دھرتی کے باسیوںکی غیرمشروط محبت تھی۔ بینظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری نے بھرپور کوشش کی وہ کسی طرح سے پورے پاکستان اور خاص طور پر پنجاب والوں کو اپنے بیٹے میں بینظیر بھٹو کی تصویر دکھائے مگر وہ اس بات کو نہیں سمجھ پائے کہ محبت کوشش سے پیدا نہیں کی جاتی۔ محبت ایک غیر شعوری جذبہ ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو اداکاری سے پیدانہیں ہوتی۔ آصف زرداری نے اہلیان پنجاب کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش تو خوب کی مگر پنجاب کی خوش قسمتی یہ تھی کہ اس کے پاس سیاسی نعم البدل تھا۔ وہ اس حوالے سے سندھ کی طرح متبادل سے محروم نہ تھا۔آصف زرداری نے جس طرح کی سیاست کی بنیاد رکھی اور انہوں نے جس طرح سیاست کو مکمل طور پر بزنس میں تبدیل کرنے کی کوشش کی‘ ان اعمال سے پنجاب کی عوامی روح اس پارٹی سے روٹھ گئی جوپارٹی بھٹوزکے بعد محض ایک نام بن کر رہ گئی ہے۔ اب اس پارٹی میں وہ بات نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ پنجاب سیاسی شعور کی بلند چوٹی نہ بھی ہوتب بھی اس میں اتنی سیاسی سمجھ ضرور ہے کہ وہ سونے اور پیتل میں فرق محسوس کرسکے۔ سندھ اس گردن کی طرح ہے جو ٹوٹے ہوئے بازوکو سہارا دینے کے سلسلے مجبور ہواکرتی ہے۔ سندھ بھی اس قدر سادہ نہیں ہے کہ اس کوزرداری کا’’بھٹو بھٹوکھیل‘‘ سمجھ میں نہ آئے مگر سندھ کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ وہ کسی سیاسی نعم البدل سے محروم ہے۔ اہلیان سندھ اب تک نہیں بھولے کہ جب اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان نے سندھ میں تحریک انصاف کومنظم کرنے کی کوشش کی تھی تب اس کو پنجاب سے کم ریسپانس نہیں ملا تھا۔ عمران خان کے ساتھ سندھ کا وہ مڈل کلاس جذبے کے ساتھ شامل ہونے لگا تھا جو سندھ میں وڈیرہ شاہی سے بہت بیزار تھا ۔ عمران خان کی صورت میں وہ ایک ایسا خواب دیکھ رہے تھے،جوشرمندہ تعبیر نہ ہو پایا۔ سندھ میںوہ سارے لوگ جو پیپلز پارٹی سے بیزار ہوکر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے ان کی اکثریت اب شکستہ دلی کے ساتھ پھر سے پیپلز پارٹی میں شامل ہورہی ہے۔ اس وقت سندھ میں کوئی سیاسی متبادل نہ ہونے کی صورت پیپلز پارٹی میں واپس آنے والے افراد کی کیفیت اس شعر جیسی ہے: ’’کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے جنہیں راستوںمیں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے‘‘ سندھ اس وقت شدید اضطراب سے گزر رہا ہے۔ سندھ میں سیاسی متبادل نہ ہونے کی صورت میں پورے پاکستان کویہ غلط پیغام موصول ہو رہا ہے کہ سندھ اب تک پیپلز پارٹی کو اپنا سیاسی اثاثہ سمجھتا ہے۔ اگر سندھ کوقریب سے سنا جائے اور سندھ کے درد کو محسوس کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ سندھ پیپلز پارٹی کے پاس اس طرح سے یرغمال ہے جس طرح تاوان کے خاطر اغوا ہونے والے لوگ یرغمال ہوتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے؟ اس وقت سندھ کے لوگ ایک دوسرے سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا سندھ میں اگلی باری پھر زرداری کی ہوگی؟ سندھ کو 13برس تک اقتداری طاقت سے لوٹنے والی جماعت اگر آنے والے انتخابات میں بھی چوتھی بار حکومت میں آنے کا راستہ نکال لائی تو واقعی سندھ ایک چیخ میں تبدیل ہوجائے گا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے جس طرح کرپشن کو سرکاری کلچر بنا دیا ہے اور لوگ جس طرح بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور دن بہ دن وہ غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں اور وڈیرا شاہی جس طرح اقتداری طاقت کو حاصل کرکے پھر سے توانا ہو رہی ہے اس کی وجہ سے سندھ کے باشعور سیاسی حلقے بیحد پریشان ہیں۔سندھ اس سیاسی قید سے آزاد ہونا چاہتا ہے مگر صرف خواہش سے سب کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حالانکہ: ’’یہ آرزو بھی بڑی بات ہے مگر ہمدم وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں‘‘ پیپلز پارٹی پر تنقید کرنے والے اکثر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی سندھ کی علاقائی پارٹی بن گئی ہے مگراس علاقے سے کسی نے معلوم کرنیکی کوشش تک نہیں کی وہ پیپلزپارٹی کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ وہ پیپلز پارٹی کو اپنی حقیقی نمائندہ پارٹی کے طور پر قبول بھی کرتا ہے یا نہیں؟ سندھ اپنی مرضی اور اپنی دلی خوشی کے ساتھ پیپلز پارٹی کا ووٹر نہیں ہے۔ سندھ کی پیپلز پارٹی کے حوالے سے ایک مجبور صوبے کی حالت ہے۔ سندھ پیپلز پارٹی کی سیاسی قید سے آزاد ہونا چاہتا ہے مگر وہ جائے تو کہاں جائے۔سندھ کبھی کبھی تو اس پرندے کی طرح محسوس ہوتا ہے جو صیاد سے مانوس ہوجائے۔کیا فطرت میں آزادی سے دست بردار ہونے کی روش ہے؟ اگر فطرت آزادی سے محبت کرتی ہے تو پھر سندھ بھی پیپلز پارٹی کے سیاسی چنگل سے رہائی پانے کے لیے بیتاب سمجھا جائے مگر یہ دھرتی فی الحال بچوں کی کہانی والی اس شہزادی جیسی ہے جو ایک دیوکے قید میں رہتے ہوئے منتظر رہتی تھی کہ کوئی آئے اور اس کو نجات دلوائے۔