دو دن میں ایک ہی شخص کے خلاف دو بڑے فیصلوں نے یقینا اس نظام کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔ یہ ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا نظام شاید کچھ اور وقت کے لیے چل سکے مگر یہ مستقل نہیں ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں شامل ہونا ہے تو ان اداروں کو آزاد ہونا ہوگا۔ان اداروں کو اتنا آزاد ہونا ہوگا کہ اپوزیشن، حکمران اور عام آدمی ان سے خوف کھائے۔ خیر آگے چلنے سے پہلے ان دو کیسز کی بات کرتے ہیں،جن میں بانی تحریک انصاف کو سزا ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک المشہور سائفر کیس ہے، جس میں شاہ محمود قریشی اور بانی پی ٹی آئی کو دس دس سال بامشقت سزا ہوئی ہے۔ آئیے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ سائفر کیس کا معاملہ کیا ہے۔ درحقیقت یہ معاملہ وہیں سے شروع ہوا جب بانی تحریک انصاف نے ایک دستاویز کو عوامی جلسے میں لہرا کر کہا تھا کہ اُن کے خلاف سازش ہوئی ہے۔ اس معاملے کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض مبصرین کے مطابق اس وقت کی بائیڈن انتظامیہ اور پاکستانی حکومت میں کچھ غلط فہمی پائی جاتی تھی جبکہ عمران خان امریکی صدر جو بائیڈن کے مخالف صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات کے دوران واضح حمایت بھی کر چکے تھے۔ جب امریکہ نے روس کے خلاف پابندیوں کی قرارداد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی تو پاکستان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ امریکی انتظامیہ نے اس پر امورِ خارجہ میں جنوبی ایشیا ء کے معاملات کے ذمہ دار ڈونلڈ لو کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ متعلقہ ممالک کے سفراء سے ملیں اور انہیں امریکی تحفظات سے آگاہ کریں۔ امریکی نمائندے نے صرف پاکستانی سفیر سے ملاقات نہیں کی بلکہ بھارت سمیت ووٹنگ میں غیر جانبدار رہنے والے سبھی ممالک کے سفراء سے اس قسم کی ملاقات ہوئی۔ پاکستانی سفیر سے ملاقات میں ڈونلڈ لو نے کہا کہ ان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ رہی ہے (اس وقت پی ڈی ایم دوبارہ متحرک ہو چکی تھی اور عدم اعتماد کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں) امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں حکومت تبدیل ہو رہی ہے‘ لہٰذا اگلی حکومت کے ساتھ امریکہ بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ پاکستانی سفیر اسد مجید نے یہ تمام گفتگو سائفر کی صورت میں وزارتِ خارجہ کو ارسال کر دی۔خیر بات چلتے چلتے اس نہج پر پہنچ گئی کہ اسی حوالے سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ لایا گیا جسے اگست 2023ء میں پارلیمنٹ سے منظور بھی کروایا گیا۔ پھر اس عدالت کا قیام بھی ہوا جس کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین بنے اور اسی عدالت نے گزشتہ روز آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مختصراً زبانی فیصلہ سناتے ہوئے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو دس‘ دس سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی۔ جبکہ دوسرے کیس کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ توشہ خانہ کیس ہے۔ جس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو 14-14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت نے سماعت کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کو 10 سال کے لیے نااہل بھی قرار دے دیا۔عدالت کی جانب سے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی پر مجموعی طور پر 1 ارب 57 کروڑ 40 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔اس پر بانی پی ٹی آئی نے جج سے کہا کہ آپ کو اتنی جلدی کیوں ہے؟ میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے، مجھے تو صرف حاضری کے لیے بلایا گیا تھا۔اس موقع پر بانی پی ٹی آئی کمرہ عدالت سے اٹھ کر اپنی بیرک میں چلے گئے۔جس کے بعد جج محمد بشیر نے توشہ خانہ ریفرنس کا مختصر فیصلہ سنایا۔اگر اس کیس کی مختصراََ تفصیل پر روشنی ڈالیں تو یہ کیس غالباََ یکم اگست 2022ء کو اُس وقت شروع ہوا جس کے مطابق بطور وزیرِ اعظم بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی نے غیر ملکی سربراہان سے 108 تحائف حاصل کیے، 108 میں سے بانی پی ٹی آئی، بشریٰ بی بی نے 14 کروڑ روپے مالیت کے 58 تحائف اپنے پاس رکھے۔ اس کے علاوہ بانی پی ٹی آئی نے سعودی ولی عہد سے موصول جیولری سیٹ انتہائی کم رقم کے عوض اپنے پاس رکھا، توشہ خانہ قوانین کے مطابق تمام تحائف توشہ خانہ میں رپورٹ کرنا لازم ہیں۔ دورانِ تفتیش معلوم ہوا کہ بشریٰ بی بی کا سعودی ولی عہد سے جیولری سیٹ تحفے میں ملا، یہ جیولری سیٹ ملٹری سیکریٹری کے ذریعے توشہ خانہ میں رپورٹ تو ہوا لیکن جمع نہیں کروایا گیا۔اس حوالے سے کیس چلتا رہا اور اب الیکشن سے چند دن قبل اس کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ اور تادم تحریر بشریٰ بی بی نے بھی اب گرفتاری دے دی ہے۔ خیر فیصلے میرٹ پر ہوئے یا نہیں یہ تو سب جانتے ہیں کہ کس طرح عجلت میں فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ یقینا ان فیصلوں سے نظام ننگا نہیں ہواہے ۔اور آنے والے دنوں میں مزید ہوگا۔ خیر میں شاید یہاں غلط ہوں گا کیوں کہ یہ ننگا، سفاک تو شروع ہی سے تھا، لیکن اب یہ ہے کہ لوگوں کو نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ آنکھوں پر بندھے کھوپے اتر رہے ہیں جس کے بعد ہر چیز صاف اور واضح نظر آ رہی ہے۔اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ جب بھی عدالت سے کوئی بڑا فیصلہ آتا ہے دو طرح کے جملے فوری سننے کو ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ نظریہ ضرورت زندہ ہو گیا اور دوسرا یہ کہ نظریہ ضرورت دفن ہو گیا۔ بلکہ یہ ’’تحفہ‘‘ تو پاکستان بننے کے فوری بعد ہی ہمیں مل گیا تھا ، جب 14 اگست کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے خطاب کیا اور پاکستان کو آزادی کی مبارک دی۔ سات سال بعد گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954 کو اسمبلی توڑ کر ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی۔یہ عمل اس وقت کیا گیا جب چھ دن بعد ملک کے پہلے آئین کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا جانے والا تھا۔ دستور ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین تھے جنہوں نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ پھر جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت آج تک قائم ہے، جسٹس منیر کے بارے میں ان کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ اگر اس وقت اپنے فیصلے میں وہ نظریہ ضرورت کا سہارا نہ لیتے تو بعد کی تاریخ بہت مختلف ہوتی کیونکہ ان کے فیصلے سے پاکستان میں غیر آئینی فیصلوں اور مارشل لائوں کا راستہ کھل گیا جو آج تک بند نہیں ہوا۔پھر ’1977 میں ضیاء الحق سے لے کر 2000 میں مشرف کے غیر قانونی اقدام کو آئین کی چھتری فراہم کرنے تک ہماری عدلیہ کے بعض سرکردہ جج نظریہ ضرورت کو قائم دائم رکھے ہوئے ہیں۔پھر اُس کے بعد1993،1997، 2002،2008، 2013، 2018کے الیکشن میں جس طرح سے نظریہ ضرورت کے تحت اداروں کا تسلسل ہوا۔ قارئین اب کے فیصلے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ میں اس حوالے سے صرف اتنا کہوں گا کہ ہمارا پیارا وطن جو معرضِ وجود تو کلمہ حق اور اسلام کے نام پر آیا تھا جس میں اسلامی تعلیمات کے مطابق عدل و انصاف کا نظام رائج ہونا تھا وہ نظام جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالٰی خود قرآن پاک میں فرماتے ہیں: ’’ اور اگر تم ان (فریقین) کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو،بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے ‘‘(سورۃالمائدہ:42)۔ بہرکیف ان فیصلوں سے وقتی فائدے تو حاصل ہو جاتے ہیں مگر یہ پائیدار نہیں ہوتے۔ ان فیصلوں سے یقینا یہاں مافیاز، اشرافیہ اور طاقتور حلقوں کو مزید تقویت ملتی ہے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے۔ نظریہ ضرورت کو دفن کرکے اس نظام کو مزید ننگا ہونے سے بچایا جائے ورنہ خاکم بدہن نہ ملک بچے گا نہ یہ قوم۔ اور ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا!